اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطگی کے لیے شوکاز نوٹس جاری کرنے کے عمل کو درست قرار دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ شوکاز کے جواب میں تحریک انصاف موقف دے سکتی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے وکلا، آئینی ماہرین اور پارٹی کے سربراہ شوکاز نوٹس کے حوالے سے اپنا موقف الیکشن کمیشن میں پیش کرنے کی بجائے آئینی ادارے کی حیثیت کو ہی چیلنج کر کے اپنے دلائل کمزور کرتے جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ چیلنج کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 204 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرملکی شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ عمران خان، الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 204، 210 اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2000 کی دفعات 5، 6، 14 کے قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے اور سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالہ سے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 204 کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے اگر شوکاز نوٹس کا جواب نہ دیا تو یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کر کے پارٹی کی ممنوعہ فنڈنگ، جس کی نشان دہی الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کی ہے، ضبط کر کے مزید کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس کے بعد الیکشن ایکٹ کی دفعہ 2015 کے تحت پارٹی کا انتخابی نشان واپس لیا جا سکتا ہے اور وفاقی حکومت بھی ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطگی کے بعد وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17 (3) کے تحت تحریک انصاف کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
عمران خان کے وکلا اور آئینی ماہرین ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت اپنے دلائل پیش کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد عمران خان کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ الیکشن کمیشن اگر تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لے لیتا ہے تو آئندہ انتخابات میں اور ضمنی انتخاب میں ان کو پارٹی کا انتخابی نشان یعنی بلا نہیں دیا جائے گا اور ان کے امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہی انتخاب میں حصہ لینے کے مجاز ہوں گے۔
صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے موقع پر بھی ان کے امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطگی کے بعد انتخابی نشان واپس لینے کی پوزیشن میں ہے۔
ملک میں امن و امان کی صورت حال اور دہشت گردی کے حملوں کے پیش نظر الیکشن کی تاریخ طے کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی تجویز گورنر صوبہ خیبرپختونخوا دے چکے ہیں اور صوبہ پنجاب کے گورنر نے چونکہ آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت پرویز الٰہی کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل نہیں کی تھی اور آئینی طور پر اسمبلی خودبخود تحلیل ہو گئی تھی، لہٰذا گورنر آئین کے آرٹیکل 105 کی شق 3 کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن نے صوبائی اسمبلی پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں کے گورنروں کو متعلقہ صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے تعین کے بارے میں جو خطوط لکھے، اس کا جواب دیتے ہوئے دونوں گورنروں نے علیحدہ علیحدہ خطوط میں کہا ہے کہ ملک کی سلامتی اور معاشی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے الیکشن کمیشن خود ہی تاریخوں کا تعین کرے۔
ادھر صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر نے مشورہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخوں کے اعلان سے قبل سیاسی پارٹیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اعتماد میں لے، جب کہ گورنر پنجاب کا موقف ہے کہ وہ صوبہ پنجاب کی اسمبلی کی تحلیل میں فریق نہیں تھے، لہٰذا آئین کے آرٹیکل 105 کی شق 3 کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، اس کی بجائے اب آرٹیکل 2018 کی شق کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 224 اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 47 (1) کے تحت صدر مملکت الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ اور فیصلہ کریں گے۔
چونکہ ماضی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہوتے تھے، اس لیے صدر مملکت عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرتے رہے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس نوع کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں نو تا 13 اپریل اور صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی انتخابات کے لیے 14 سے 17 اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار گورنروں کو دیا ہے۔
اسی طرح دستور پاکستان میں متعلقہ قوانین موجود ہیں جو معاملات طے کرتے ہیں اور اگر 90 روز میں انتخابات نہیں ہوتے تو آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتے، پاکستان کی ریاست اوّلین حیثیت رکھتی ہے اور ملکی قوانین کا اطلاق ریاست کے مفاد میں ہی کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ق کی اندرونی کشمکش
الیکشن کیشن نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 205 کے تحت چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان مسلم لیگ ق ہی کا صدر تسلیم کرتے ہوئے ان کے خلاف ریفرنس کو مسترد کر دیا ہے۔ اب چوہدری پرویز الٰہی اور دیگر ساتھیوں کے خلاف چوہدری شجاعت حسین نے شوکاز نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں چوہدری برادران کا اہم حصہ رہا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو حالات کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان کے سحر سے باہر نکلنا ہو گا۔ تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور مستقبل قریب میں تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کے بارے میں شدید تحفظات رکھتی ہے، لہذا ان کا سیاسی مستقبل پاکستان مسلم لیگ (ق) میں ہی پوشیدہ ہے۔
اب پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے مسلم لیگ ہاؤس، ڈیوس روڈ لاہور کے قبضے کے لیے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے اور خط میں واضح کیا گیا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین پارٹی کے سربراہ ہیں، لیکن مسلم لیگ ہاؤس پر ان کا قبضہ نہیں ہے لہٰذا مسلم لیگ ہاؤس واگزار کر کے ان کے حوالے کیا جائے۔
دراصل پاکستان مسلم لیگ ہاؤس 1963 میں پاکستان مسلم لیگ کنونشن نے خریدا تھا اور غالباً اس وقت پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے سیکریٹری جنرل ذوالفقار علی بھٹو تھے، جب کہ 33 ڈیوس روڈ لاہور پاکستان مسلم لیگ کنونشن کی ملکیت تھا، جس کے سربراہ ملک کے صدر ایوب خان تھے جو بیک وقت پاکستان مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔
ایوب خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر فضل القادر چوہدری تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے صدر ملک محمد قاسم رہے اور ان کی وفات کے بعد 33 ڈیوس روڈ لاہور پر قبضہ کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اور بعد ازاں 33 ڈیوس روڈ لاہور پر پاکستان مسلم لیگ (ق) کی ملکیت کو تسلیم کر لیا گیا اور بعد ازاں چوہدری پرویز الٰہی نے بطور صدر پنجاب مسلم لیگ (ق) 33 ڈیوس روڈ پر صوبائی ہیڈ کوارٹر بنایا ہوا ہے۔
لہٰذا بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین ہی اس صوبائی دفتر کی ملکیت کے حق دار ہیں اور اب چونکہ الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت حسین کو ہی پارٹی کا سربراہ تسلیم کر لیا ہے، لہٰذا چوہدری پرویز الٰہی کو چوہدری شجاعت حسین کا موقف تسلیم کر لینا چاہیے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔