زندگی تو حاذم بنگوار جی رہے ہیں

اتنی ٹینشنوں میں حاذم بنگوار کا انسٹاگرام دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے کہ وہ اس روایتی اور گھٹن زدہ معاشرے میں اپنی مرضی، پورے سٹائل سے زندگی جی رہے ہیں۔  

جہاں ایک طرف حاذم بنگوار پر تنقید ہو رہی ہے تو دوسری جانب انہیں سراہا بھی جا رہا ہے (حاذم بنگوار فیس بک)

کچھ دن سے سوشل میڈیا پر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں نئے نئے تعینات ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر حاذم بنگوار کی تصاویر وائرل ہیں۔

ہم ان تصاویر پر ہونے والی بحث سے بے خبر ہیں۔ ہم نے پچھلے کچھ سالوں میں اپنے سوشل میڈیا کا دائرہ کافی تنگ کر لیا ہے۔ اب اس دائرے میں ہمارے جیسے لوگ ہی موجود ہیں، جنہیں ایسی تصاویر دیکھ کر اگلے کی زندگی پر رشک ہی آتا ہے۔ ہم بھی اسسٹنٹ کمشنر صاحب پر رشک کر رہے ہیں۔

اصل زندگی تو یہ جی رہے ہیں۔ اس معاشرے کی جھنجھٹوں اور پریشانیوں سے دور۔ وگرنہ اس ملک میں کون جی سکتا ہے۔ مہنگائی، تشدد، دہشت گردی، مذہبی شدت پسندی، معاشرتی تفریق و دباؤ نے ہر کسی کو پریشانی میں ڈالا ہوا ہے۔

ہماری ایک دوست کہا کرتی تھیں، اس ملک کی ہوا میں ہی ٹینشن ہے۔ ہم ان کی بات سے صد فیصد اتفاق رکھتے ہیں۔ اس ملک کی ہوا میں آکسیجن سے زیادہ ٹینشن موجود ہے۔ عام پاکستانی اسی ٹینشن میں اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ کسی کے گھر جانا ہے تو کیا لے کر جانا ہے۔ کوئی اپنے گھر آ رہا ہے تو اسے کیا کھلانا ہے۔

ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بھی اپنا سفید پوشی کا بھرم کیسے قائم رکھنا ہے۔ کوئی مہینے کے آخر میں بغیر بتائے آ جائے تو اس کی پرتعیش دعوت کیسے کرنی ہے۔ روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کے ساتھ ہونے والی مہنگائی کے باوجود ہر نئی عید پر پچھلی عید جتنی عیدی یا اس سے بڑھ کر عیدی کیسے دینی ہے۔ بچوں کی زندگی اور لوگوں کی باتوں میں توازن کیسے برقرار رکھنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اتنی ٹینشنوں میں حاذم بنگوار کا انسٹاگرام دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ وہ اس روایتی اور گھٹن زدہ معاشرے میں اپنی مرضی، پورے سٹائل سے چلا رہے ہیں۔  

ان کے پاس وہ نوکری ہے جو پاکستان کا ہر نوجوان کرنا چاہتا ہے۔ اس نوکری کے ساتھ طاقت بھی آتی ہے۔ زیادہ تر لوگ بیوروکریسی میں اسی طاقت کی وجہ سے آتے ہیں۔

ہم نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو بیوروکریسی میں آنے کے بعد اپنی نوکری کو اپنی پوری شخصیت بنا لیتے ہیں۔ ایسا قریباً ہر شعبے میں ہوتا ہے۔ اکثر صحافی بھی کہتے ہیں کہ جی ہمارا تو فون ہی کبھی خاموش نہیں ہوتا، ہم ہر وقت ڈیوٹی پر رہتے ہیں۔

ہم کچھ ایسے بیوروکریٹس کو بھی جانتے ہیں جو شاید دوسروں کو اپنی نوکری کی حساس نوعیت کا بتانے کے لیے فضول کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ کیسے ان کی زندگی مکمل کنٹرول میں گزر رہی ہے۔ کیسے یہ ایک نظم و ضبط کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ کیسے یہ ہر جگہ اپنے قول و فعل اور چال چلن کا دھیان رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔

دوسری طرف حاذم بنگوار ہیں، جو نوکری کو نوکری سمجھ کر کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی اس نوکری کے اردگرد نہیں گھومتی۔ وہ اس نوکری کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔ اس کی تفصیلات ان کے سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

ایک ویڈیو میں وہ اپنے بیگ میں موجود اشیا دکھا رہے تھے۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ہمارا بھی ویسا ہی بیگ خریدنے کا دل کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنا کام پوری پیشہ ورانہ ذمہ داری سے کرتے ہیں۔ کام کے بعد ان کی ذاتی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ اس میں وہ کیا کرتے ہیں وہ کسی کا دردِ سر نہیں ہونا چاہیے۔

وہ اپنے سوشل میڈیا پر کچھ ایسا نہیں کر رہے جو کسی بھی طرح کسی کی دل آزاری کا سبب بن رہا ہو۔ پھر بھی جنہوں نے تنازع بنانا ہو وہ بنا ہی لیں گے۔ ان کا وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

ان کی یہ بات ہمارے دل کو چھو گئی۔ انہوں نے دو جملوں میں بہت سی باتیں کر دیں۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ کام جیسے شروع ہوتا ہے ویسے ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی اپنی ذاتی زندگی شروع ہوتی ہے۔

کام اور زندگی کے درمیان توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس حوالے سے واضح حدود متعین کرنا بھی اہم ہے۔ دفتر والوں کو بھی پتہ ہو کہ آپ پانچ بجے کے بعد دستیاب نہیں ہوں گے اور گھر والوں کو بھی پتہ ہو کہ وہ ہر برسات میں آپ کو چھٹی کرنے کا نہیں کہہ سکتے۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے لوگوں کی حد بھی واضح کر دی۔ دوسروں کی باتوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنی زندگی اپنے اصولوں پر گزار رہے ہیں اور اگر ان اصولوں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا تو کسی کا ان کی زندگی پر اعتراض کرنا بنتا نہیں ہے۔

اگر کوئی اعتراض کر بھی رہا ہے تو اس کی انہیں بالکل پروا نہیں۔ وہ اس ٹینشن میں بھی نہیں آنا چاہتے۔

ان کا اعتماد دیکھتے ہوئے ہمیں ان پر رشک آ رہا ہے۔ اس ملک میں اگر کوئی جی رہا ہے تو وہ حازم اور ان جیسے دیگر افراد ہیں جو اپنی بنائی ہوئی واضح حدود کے ساتھ اس معاشرے میں آرام سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

ورنہ یہاں کے لوگوں نے کہاں کسی کو جینے دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ