میانمار: بدبودار پانی میں روزگار تلاش کرتی خواتین

ایک خاتون سمیت تقریباً دس افراد کا ایک گروپ صبح سویرے پازنڈانگ کریک پر کام کرنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔

مایو اپنی ’ریور کلینرز‘ کی ٹیم کے ساتھ پلاسٹک کی عارضی کشتی کو خلیج ینگون کے گندے پانی میں اتارتی ہیں تاکہ اسے پلاسٹک اور ٹِن کے ڈبوں سے پاک کیا جا سکے۔

ان کے ساتھ تقریباً دس افراد کا ایک گروپ صبح سویرے پازنڈانگ کریک پر کام کرنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔

انہیں یہ کام کرنا ہے کیوں کہ 2021 میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد میانمار کو معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے۔

خلیج کا پانی گندا اور بدبودار ہے۔

یہ لوگ تاجروں کو فروخت کرنے کے لیے دوبارہ قابل استعمال مواد اکٹھا کرتے ہیں جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے کیوں کہ فوج کی طرف سے اقتدار پر اچانک قبضے کے بعد یہ لوگ ملازمت کھو چکے ہیں۔

فوجی بغاوت نے معیشت کو نقصان پہنچایا اور بڑے پیمانے پر بدامنی کو جنم دیا۔

36  سالہ ما یو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے لیے ملک میں کوئی ملازمت نہیں ہے اور بچوں کی کفالت اور شوہر کی صحت کی دیکھ بھال میری ذمہ داری ہے۔‘

اس موقعے پر انہوں نے اپنے گالوں پر صندل کی لکڑی سے تیار کیے گئے پیسٹ جسے ’تھناخا‘ کہتے ہیں، کا لیپ کر رکھا تھا۔ یہ میانمار میں سورج کی تمازت سے بچنے کا مقبول طریقہ ہے۔

ما یو کا کہنا تھا کہ ’لہٰذا میں نے پلاسٹک کی کچھ شیٹیں کرائے پر لیں اور اپنی ہمسائی کے ساتھ خلیج کی طرف گئی۔ ہم پہلے روز فروخت کرنے کے لیے کچھ پلاسٹک اور کین جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم خوش تھے۔‘

عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق فوجی بغاوت کے نتیجے میں میانمار کی معشیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شہری ملازمت سے محروم ہو چکے ہیں۔

41 سالہ ما نگل روزی کے ذریعے سے ہاتھ دھونے کے بعد دریا کی طرف آئیں۔ وہ اپنے بڑھئی کا کام کرنے والے شوہر کے ساتھ ینگون میں سٹال پر سبزیاں اور مچھلیاں بیچا کرتی تھیں۔ ان کے خاوند کو بھی باقاعدگی سے کام نہیں ملتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ما نگل کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے والدین اور خاندان کے لوگوں کو نہیں بتایا کہ ہم یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں پتہ چل گیا اور مجھے ان کے سامنے وضاحت کرنی پڑی کہ میں یہ کام اپنے خاندان کے لیے کر رہی ہوں۔‘

’لاشیں‘

 ایک اچھے دن کسی کچرا اکٹھا کرنے والے کو 30 ہزار کیات (10 ڈالر) کا کچرا مل سکتا ہے لیکن عام طور پر گھر لے جانے کے لیے تین ڈالر ہی ہوتے ہیں۔

ینگون کی گلیوں میں کچرا چننے والی کیو کیو خینے کے بقول: ’ہمارے کام شروع کرنے سے پہلے بہت سارا پلاسٹک، ڈبے اور بوتلیں خلیج میں موجود تھیں۔‘

کچرا اکھٹا کرنے والے سمندری پانی کے اتار چڑھاؤ کے مطابق اپنے کام کو ترتیب دیتے ہیں۔ وہ اس وقت زیادہ کچرا اکٹھا کرتے ہیں جب پانی اتر جائے اور دن کا کام ختم کرنے کے بعد واپسی کے لیے پانی کی بلند ہو جانے والی سطح سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ما یو کا کہنا ہے کہ سمندری پانی کی سطح کا بلند ہونا دھوکہ دے سکتا ہے۔ وہ کام کے ابتدائی دنوں میں اپنی کشتی سے پانی میں جا گریں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو میں یہاں بالکل تنہا ہوتی ہوں اور کچھ نہیں کر سکتی۔‘

سمندر ینگون میں نظم و نسق کی خرابی کی باقاعدگی کے ساتھ یاد دہانی بھی کرواتا ہے جہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ما یو نے بتایا کہ کچرا اکھٹا کرنے والوں کو تسلسل کے ساتھ ’لاشیں‘ پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی ملتی ہیں۔

ان کے مطابق ’یہ کوئی آسان کام نہیں ہے.. میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ میرے بچے فاقہ کشی نہ کریں۔‘

ان کے ساتھ کچرا اکٹھا کرنے والی ما نگل کہتی ہیں کہ کچھ وقت اچھا بھی گزرتا ہے۔

’جب کچھ لوگ ہمیں کام کرتا دیکھتے ہیں تو ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں بلدیہ کی صفائی والی ٹیم آ گئی ہے۔ اسے علم ہے کہ دریا کو کیسے صاف کیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا