میانمار کی فوج نے علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ایک چھوٹے سے قصبے پر فضائی حملے اور بھاری توپ خانے سے حملہ کیا ہے، ان حملوں کے بعد سینکڑوں لوگ دریا کے پار واقع تھائی لینڈ کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق مقامی حکام اور رہائشیوں نے جمعہ کو بتایا سرکاری فورسز نے تھائی سرحد کے قریب ایک چھوٹے سے قصبے لی کے کاؤ کو نشانہ بنایا جس پر کیرن گوریلا گروپ کا کنٹرول ہے جو مرکزی حکومت سے خود مختاری کے خواہاں ہیں۔
فروری کے بعد سے لڑائی میں شدت آئی ہے جب فوج نے آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس گوریلا گروپ نے فوج کے مخالفین کو پناہ دینے کی پیش کش کی تھی۔
حالیہ جھڑپیں گذشتہ ہفتے سرکاری فوجیوں کی جانب سے لی کے کاؤ پر چھاپے سے شروع ہوئی تھیں۔
میانمار کے آزاد ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ حکومتی فوجیوں نے فوجی حکومت کی منظم مخالفت سے وابستہ 30 سے 60 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ان افراد میں سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کے کم از کم ایک منتخب قانون ساز بھی شامل ہیں۔
سرحد کی تھائی جانب بھی فائرنگ، بمباری اور لڑاکا طیاروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جہاں مکانات دھماکوں سے لرز گئے۔
گذشتہ ہفتے تقریبا 2500 دیہاتی بھی ان جھڑپوں سے فرار ہو کر تھائی لینڈ کے ضلع مائے سوت میں داخل ہو گئے تھے۔
ان جھڑپوں میں ہلاکتوں کے متعلق فی الحال کوئی اطلاع نہیں ہے۔
لی کے کاو ٹاؤن انتظامیہ کے ایک رکن ای لون نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ دو فوجی طیاروں نے لی کے کاو کے قریب ایک مقام پر بمباری کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ فضائی حملوں کے بعد جمعرات کی شام سے شروع ہونے والے فوجی اڈوں سے توپ خانے کی فائرنگ کی گئی۔
ان فضائی حملوں سے تین دن قبل کیرن گوریلوں نے شہریوں کی حفاظت کے لیے اقوام متحدہ سے نو فلائی زون نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
خبر رساں ادارے رؤئٹرز کے مطابق گوریلا تنظیم کیرن نیشنل یونین (کے این یو) نے کہا ہے کہ فوج نے جمعرات کی رات تھائی میانمار سرحد کے قریب اپنے زیر کنٹرول علاقے پر کم از کم دو فضائی حملے کیے۔
تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج اور کے این یو گوریلوں کے درمیان حالیہ جھڑپیں گذشتہ ہفتے شروع ہوئی تھیں اور تشدد شروع ہونے کے بعد سے اب تک 4200 سے زائد افراد تھائی لینڈ میں داخل ہو چکے ہیں۔
سول سوسائٹی گروپوں نے کہا ہے کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد 10 ہزار تک ہے۔
کے این یو کے ترجمان ساو تونی نے روئٹرز کو بتایا کہ فضائی حملوں نے علاقے میں رہنے والے شہریوں کو مزید بے گھر کر دیا ہے۔ انہوں نےاپنے گروپ کی جانب سے عالمی برادری سے علاقے میں نو فلائی زون قائم کرنے کا بھی مطالبہ دہرایا ہے۔
تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ کے ترجمان تانی سنگرات نے جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ تھائی لینڈ کو کیرن ریاست میں تازہ ترین تشدد پر تشویش ہے جس نے سرحد کے ساتھ رہنے والے تھائی شہریوں کو بھی متاثر کیا ہے۔
میانمار میں یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ سمیت متعدد غیر ملکی سفیروں نے جمعہ کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کیرن ریاست اور فوج کی جانب سے دیگر مقامات پر ’اندھا دھند حملوں‘ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ کیرن ریاست میں شہریوں پر حالیہ حملوں سمیت دیہات پر گولہ باری بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اسے روکنا چاہیے۔