سینیٹر میر حاصل خان بزنجو کا المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کے ایک بڑے اہم سیاسی گھرانے میں پیدا ہونے، کئی دہائیوں تک بلوچ قوم پرستانہ سیاست سے وابستہ رہنے اور صوبے کے چپے چپے سے واقف ہونے کے باوجود وہ اسلام آباد سمیت باقی پاکستان کو بلوچستان کے بارے میں صحیح آگاہی اور واقفیت فراہم نہیں کرسکے۔
وہ آج بھی اسلام آباد کے پالیسی سازوں کو یہ نہیں سمجھا سکے کہ بلوچستان میں شورش کیوں جاری ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
بزنجو صاحب کا المیہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں سے بہت قریب حتیٰ کہ وفاقی وزیر برائے جہاز رانی رہنے کے باوجود وہ اپنے ہی صوبے کے لوگوں کو آج تک یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ بلوچ اسلام آباد پر کیوں کر اعتبار اور اعتماد کریں۔ وہ یہ بھی سمجھانے میں یکسر ناکام ہوگئے کہ آخر اسلام آباد بلوچستان میں چاہتا کیا ہے۔
اسلام آباد میں اتنا عرصہ گزارنے کے باجود وہ بلوچوں کو وفاقی حکومت کا موقف نہیں سمجھا سکے کہ آخر اسلام آباد بلوچستان میں کس طرح کی ’ترقی‘ لانا چاہتا ہے اور بلوچوں کو کیوں کر حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کرنی چاہیے۔
حاصل بزنجو کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلام آباد میں سی پیک پر سیمنار در سیمنار تقریریں کرنے کے باوجود جب بلوچستان لوٹتے ہیں تو اپنی ہی عوام کو یہ نہیں سمجھا سکتے کہ اربوں ڈالرز لاگت کے اس منصوبے سے بلوچوں کو کیا فائدہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں سی پیک ہماری ترقی کا منصوبہ ہے، اس سے بلوچستان میں خوشحالی آئے گی اور بلوچوں کو گوادر میں ہونے والی ترقی سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس عمل میں بھرپور حصہ لینا چاہیے لیکن ان کے مخالفین بزنجو صاحب کا نام لے کر کہتے ہیں کہ سی پیک میں بلوچستان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بزنجو صاحب بھی بلوچستان کے ساتھ ہونے والے اس فراڈ کے ذمہ دار ہیں۔
بزنجو صاحب کا المیہ یہ ہے کہ نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری تک، رضا ربانی سے لے کر احسن اقبال تک، محمود خان اچکزئی سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک، سب سے ذاتی مراسم رکھنے کے باجود وہ بلوچستان کے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ان بڑی شخصیات کے پاس اتنا اختیار ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرسکیں۔
بزنجو صاحب کا المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند خود انہیں ’آئی ایس آئی‘ کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت (نیشنل پارٹی) کے دروازے ڈرگ مافیا کے لیے کھولے ہوئے ہیں اور مسلح جدوجہد کرنے والی قوتوں کو کچلنے کے لیے نیشنل پارٹی بلوچستان میں اسلام آباد کی پراکسی کی صورت میں استعمال ہوتی رہی ہے۔
بزنجو صاحب کا شمار بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کے سخت ترین ناقدین میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’بلوچ مسلح انتہا پسند گروہ بلوچستان کی بربادی، نوجوانوں کے قتل اور 7000 بلوچوں کے قاتل ہیں۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن کا ذمہ دار اگر کوئی ہے تو وہ بلوچ مسلح انتہا پسند ہی ہیں۔‘
انہوں نے ایک مرتبہ کہا لندن میں (جہاں بلوچ آزادی پسند رہنما حربیار مری مقیم ہیں) اور جنیوا (جہاں براہمداغ بگٹی اب بھی سیاسی پناہ کے طلب گار ہیں) میں بیٹھے خون خوار لوگ بلوچ نوجوانوں کے خون کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔
ہماری سیاست میں فوج اور خفیہ اداروں کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں لیکن سیاست دان اس مسئلے کو صرف اسی وقت اٹھاتے ہیں جب ان کے اپنے مفادات خطرے میں ہوں۔ بلوچستان میں ہر سیاست دان اپنے مخالف کو ’آئی ایس آئی کا ایجنٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے خلاف ’نالہ پار قوتیں‘ سازش کر رہی ہیں۔ (اس اصطلاح کی وجہ یہ ہے کہ کوئٹہ شہر اور وہاں موجود فوجی چھاؤنی کے درمیان حبیب نالہ بہتا ہے اور مقامی سیاسی و صحافتی زبان میں نالہ پار کی اصطلاح روزانہ [لیکن ڈر ڈر کے] استعمال کی جاتی ہے)۔
جب 2008 میں بزنجو صاحب سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تو ان کے مخالفین نے ان پر ’آئی ایس آئی کا ایجنٹ‘ ہونے کا الزام لگایا تھا کیونکہ بقول قدوس بزنجو (سابق وزیراعلیٰ بلوچستان) میر صاحب کی جماعت نے تو اس سال ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور صوبائی اسمبلی میں ان کی جماعت کی ایک نشست بھی نہیں تھی تو پھر وہ کیسے سینیٹر منتخب ہوئے؟
قدوس بزنجو نے الزام لگایا کہ یا تو بزنجو صاحب نے ہارس ٹریڈنگ کی تھی یا نیشنل پارٹی کی طرف سے عام انتخابات کا بائیکاٹ ایک ڈھونگ تھا۔
بہرحال بلوچستان میں کوئی کچھ بھی کہے اسلام آباد میں اس وقت سینیٹ چیئرمین کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کی ڈرامائی ناکامی کے بعد بزنجو صاحب سب سے بڑے اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ اسے بلوچستان کی خوش قسمتی کہہ لیں یا کچھ اور۔ یاد ہے جب مشرف کے زمانے میں وکلا تحریک کے دوران اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا یہ تاج بلوچستان ہی کے وکیل علی احمد کرد کے سر تھا؟
سینیٹ میں چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد بزنجو صاحب خاصا آگ بگولہ تھے، صحافیوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور ان کا پیچھا کیا اور پوچھا کہ یہ کیا اور کیسے ہوا؟
انھوں نے فوری طور پر حساس ادارے کے سربراہ کا نام لے دیا۔ جن لوگوں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ سینیٹر شیری رحمن بس یہ کہنے سے رہ گئیں کہ ’حاصل، ہمیں مرواو گے کیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ مختصر انٹرویو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور یقیناً اس کی بازگشت ہماری تاریخ کی کتابوں میں بار بار سنائی دے گی۔ اس کے فوری بعد فوج کے ترجمان نے بیان جاری کر کے بزنجو صاحب کے الزامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تردید بھی کی۔
دوسری طرف گوجرانوالہ کے ایک جج نے بزنجو صاحب پر ملک کے ایک اہم ادارے کے سربراہ پر ’غلط اور بے بنیاد الزامات‘ لگانے کے الزام میں انہیں طلب کیا ہے۔ یہ حربہ بظاہر اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سیاست دان وضع کردہ دائرے سے باہر قدم نہ رکھیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پچھلے کچھ عرصے سے حاصل بزنجو کی سیاست اور شخصیت بدل رہی ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات سے چند ماہ قبل یہ افسوس ناک خبر بھی ملی کہ وہ کینسر کا شکار ہیں اور تب سے ان کی صحت کے حوالے سے مختلف خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔
ان کا بدلتا ہوا سیاسی رویہ دراصل بلوچستان کے اُس سیاسی کلچر کا عکاس ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ سیاست دان اپنی سیاسی زندگی کے ایک حصے میں تو اسٹیبلشمنٹ نواز ہوتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اقتدار کے اسی سرچشمے کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں نواب اکبر بگٹی کی مثال واضح ہے، وہ کئی سالوں تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے لیکن زندگی کے آخری ایام میں مخالف بن گئے یا بنائے گئے، یہاں تک کہ یہ فیصلہ ان کی 26 اگست 2006 کو ایک فوجی کارروائی میں موت کا سبب بنا۔
اس کے برعکس میر حاصل بزنجو کے والد غوث بخش بزنجو جوانی میں سخت اسٹیبلشمنٹ مخالف تھے۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت ریاست قلات کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی بھرپور مخالفت کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے موقف میں نرمی اور لچک آئی اور وہ پاکستان کی سیاست کرنے لگے۔
بزنجو صاحب کے رویے میں تبدیلی پچھلے سال ہونے والے عام انتخابات کے بعد دیکھنے میں آئی ہے کیونکہ اس سے قبل ان کی جماعت بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔
پھر راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنی، جس میں اسلام آباد اور فوج نواز قبائلی عمائدین شامل ہوگئے۔ بزنجو صاحب نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ سیاسی عمل میں مداخلت کرنے کے بجائے خود سیاست ہی میں کود پڑے۔
ماضی میں سمجھا جاتا تھا کہ بزنجو ہی کی پارٹی بلوچ مسلح قوتوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے اور پھر بلوچستان عوامی پارٹی نے آ کر ان کا بنا بنایا کھیل خراب کر دیا۔
عام انتخابات کے بعد بزنجو صاحب بدستور سخت گیر موقف اپناتے گئے جس کے جواب میں حکومت نے بھی ان کے خلاف نیب کیسز کا مضبوط آلہ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے سینیٹ سیکرٹریٹ میں نیب کے خلاف ایک تحریک استحقاق جمع کرا دی جس میں انہوں نے کہا انہیں خبروں ہی سے پتہ چلا ہے کہ نیب نے پنجاب میں ان اور ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کے حوالے سے اربوں روپے کی جائیدادوں کی موجودگی کا انکشاف کیا جو حیران کن ہے۔ انہوں نے الزام لگایا نیب کا کام اب لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا رہ گیا ہے۔
بزنجو صاحب کا المیہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان میں بیک وقت بلوچ علیحدگی پسندوں، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیب کے خلاف برسر پیکار ہیں اور ایک زمانے میں بلوچستان میں اتنے سارے مخالفین بنانے کے بعد اسلام آباد ہی ایک مضبوط پناہ گاہ رہ گیا تھا جہاں انہوں نے شریف، زرداری، عمران خان، فوج اور نیب کی جاری جنگ میں فریق بن کر اور آئی ایس آئی سے متعلق سخت بیان دے کر اپنے لیے نئے دشمن پیدا کر لیے ہیں۔
ایک بات طے ہے، جو اسلام آباد کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے وہ بلوچستان میں ہیرو بن جاتا ہے۔ کیا حاصل بزنجو بھی نواب بگٹی بننے جا رہے ہیں؟