اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اس کے رکن ممالک میں غالب رائے یہ ہے کہ القاعدہ کی قیادت سیف العدل کے حوالے کر دی گئی ہے، جو اسامہ بن لادن کی سکیورٹی کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے امریکہ پر نائن الیون کے حملے میں ملوث کچھ ہائی جیکرز کو تربیت بھی دی تھی۔‘
ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ماہرین کے پینل نے پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’گذشتہ سال اگست میں کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے ایمن الظواہری کی جگہ سیف العدل کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔‘
اس رپورٹ کے مطابق، ’نومبر اور دسمبر میں ہونے والی بات چیت میں اقوام متحدہ کے کئی رکن ممالک نے یہ موقف اختیار کیا کہ سیف العدل پہلے ہی اس گروپ کے بلامقابلہ رہنما کے طور پر کام کر رہے ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس بارے میں سب کی رائے مختلف ہے کہ سیف العدل کی قیادت کے بارے میں اعلان کیوں نہیں کیا گیا۔‘ ماہرین کے مطابق ’بعض ممالک کا خیال ہے کہ کابل میں الظواہری کی موجودگی سے ملک کے طالبان حکمرانوں کو شرمندگی سامنا کرنا پڑا ہے، جو قانونی طور پر اپنے آپ کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ القاعدہ نے اس موت کا اعتراف کرکے اس میں مزید اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’زیادہ تر لوگوں نے ایران میں سیف العدل کی مسلسل موجودگی کو ایک اہم عنصر قرار دیا (جس نے) القاعدہ کے لیے مشکل مذہبی اور آپریشنل سوالات کو جنم دیا۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا، ’ایک ملک نے القاعدہ سے وابستہ کسی بھی فرد کی ایران میں موجودگی کے دعووں کو مسترد کیا ہے، سیف العدل کی اس جگہ موجودگی سے ایسے سوالات اٹھتے ہیں جن کا اثر داعش کی جانب سے درپیش چیلنج کے سامنے ایک عالمی تحریک کی قیادت پر زور دینے کے القاعدہ کے عزائم پر پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیف العدل کون ہیں؟
پینل کا کہنا ہے کہ ’سیف العدل مصر میں پیدا ہونے والے محمد صلاح الدین عبدالحلیم زیدان کے طور پر جنوری 2001 سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ نومبر2001 میں اسامہ بن لادن کے ایک اہم ساتھی محمد عاطف کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد اقوام متحدہ کی فہرست میں انہیں(سیف العدل) القاعدہ کے فوجی کمانڈر کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’اسامہ بن لادن کے سکیورٹی چیف ہونے کے علاوہ سیف العدل نے عسکریت پسندوں کو دھماکہ خیز مواد استعمال کرنا سکھایا اور 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملے میں ملوث کچھ ہائی جیکرز کو تربیت بھی دی تھی۔
’انہوں نے صومالی جنگجوؤں کو بھی تربیت دی جنہوں نے 1993 میں صومالیہ کے شہر موغادیشو میں 18 امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا۔ سیف العدل اگست 1998 میں تنزانیہ کے دارالسلام اور کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں امریکی حکام کو مطلوب ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ’القاعدہ، داعش اور ان سے وابستہ گروہوں سے خطرہ جنگ زدہ علاقوں اور ہمسایہ ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ اور حالیہ برسوں میں افریقہ ایک ایسے براعظم کے طور پر ابھرا ہے جہاں دہشت گردی سے ہونے والے نقصانات سب سے زیادہ تیزی اور بڑے پیمانے پر بڑھ رہے ہیں۔‘
پینل کا کہنا ہے کہ ’داعش کی قیادت بھی 30 نومبر کے اعلان کے بعد ایک سوال بن گئی ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ ابو الحسن الہاشمی القریشی گذشتہ ماہ ایک لڑائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ2022 میں ہلاک ہونے والے گروپ کے دوسرے سربراہ ہیں۔
’نئے سربراہ کا نام ابو الحسین الحسینی القریشی رکھا گیا ہے اور ان کی اصل شناخت ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ رکن ممالک نے داعش گروپوں کی جانب سے ابوالحسین کی بیعت کے متعدد عہدوں کا ذکر کیا ہے۔ رہنما کے طور پر ان کی شناخت یا خصوصیات کے بارے میں اکثریت کو کوئی خاص علم نہیں۔‘
(ایڈیٹنگ: ارشد چوہدری)