چلے جانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ کہیں آنا، کسی سے ملنا، بیٹھ کے گپیں مارنا، دکھ درد محسوس کرنا، خلاؤں میں گھورنا، کافی کچھ سوچنا اور بہت تھوڑے لفظ بولنا، جانور، پرندے، پھول، آس پاس کے سب منظر دیکھنا، چاہ کے بھی چہرے پہ نظر نہ ڈالتے ہوئے چلے جانا۔۔۔
تو چلے جانا بڑا مشکل کام ہوتا ہے!
اس سے زیادہ مشکل الوداع کہنا ہے، خدا حافظ کہنا ہے۔
نہیں جانتے دوبارہ کب ملنا ہے، کہاں ملنا ہے، وقت ہو گا بھی یا نہیں لیکن یہ علم ہے کہ ابھی رخصت کا وقت ہے اور بس اب چلے جانا ہے۔
موبائل نہیں تھا تو خدا حافظ کا مطلب زیادہ واضح ہوا کرتا تھا، اب یہ لفظ عادت میں شامل ہے لیکن اسے کہہ دینا بعض اوقات نئے سرے سے تکلیف دہ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔
جیسے تیسے کہہ دیا اور پھر ایک میسج آتا ہے ’چلے گئے؟‘ ادھر بھیرویں میں تان پوری بلندی پہ چھڑ جاتی ہے۔
’جوگی مت جا، مت جا، مت جا۔۔۔‘
پہلے گزرے ہوئے دن فلم کی ریل جیسے آنکھوں کے سامنے آتے ہیں اور پھر بیک گراؤنڈ میں ایک یہی لفظ چلتا رہتا ہے ۔۔۔ چلے گئے، چلے گئے، چلے گئے۔
چلے گئے یار لیکن کتنی ہی چیزیں ساتھ لے گئے۔ ساتھ رہتے ہوئے دو انسان کتنی ساری حرکتیں ایسی کرتے ہیں جو اس وقت غیر محسوس ہوتی ہیں لیکن بعد میں سب کچھ الگ معنی کا لباس پہن کر چھم سے ایک دم سامنے آ جاتا ہے۔
پھر پیغام ملتا ہے ’پہنچ گئے‘ ۔۔۔ اس کے بعد چلنے والی فلموں کی الگ ایک کہانی ہے۔
فلاں دوپہر کو ساتھ سے گزرتی گاڑی کی بجائے مجھے ساتھ بیٹھی تیار مسافر کی تعریف کرنا چاہیے تھی۔
اس دن چائے پیتے ہوئے اگر ہم تھوڑے قریب بیٹھ جاتے تو کیا ہو جاتا؟ لیکن پھر شکل نظر نہیں آنی تھی، چلو ایسے بھی ٹھیک ہے ۔۔۔ لیکن کچھ دیر اور بیٹھ تو جاتے؟ نہیں؟
وہ پرندہ جس کا لال سر اور سنہری گردن تھی، اسے دیکھنے کے لیے ہم قریب بھی جا سکتے تھے۔ لیکن پھر وہ اڑ جاتا، مگر دیکھ تو لیتے، اس نے اڑ تو جانا ہی تھا۔
کوئی ایک تصویر بنا لیتے ۔۔۔ کیا کام تصویر کا؟ اس نے تو الٹا ساری یادیں ایک ایک لمحہ جما کر سامنے کھڑا کر دینا تھا!
میں اس دن نہ جاتا، کچھ دیر بیٹھ جاتا، لیکن کب تک بیٹھتا؟ کبھی تو اٹھنا تھا، وقت تو بہرحال ٹھہرتا نہیں ہے۔ تو بس چلا گیا۔
جیسے جمال احسانی کا جوگی چلا گیا۔۔۔
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی
جانا طے ہے۔ گلاب کا پھول، مرجھاتا ہے، مور کے پر جھڑ جاتے ہیں، درختوں کے پتے خزاں آتے ہی زمین کا رخ کرتے ہیں، شیر کی ایال وقت کے ساتھ تھوڑی رہ جاتی ہے، سورج مکھی بھی تیسرے دن سر جھکا لیتا ہے، مکئی کی لہلہاتی فصلیں خود اپنا بوجھ نہیں سہار پاتیں، اچھے سے اچھا سیب پانچ روز بعد سکڑ جاتا ہے، موتیا، آدھے دن میں کملا جاتا ہے، چنبیلی تو ہاتھ کی گرمی سے ہی تباہ حال ہو جاتی ہے، دلیپ کمار بھی چلا جاتا ہے، گلزار کے بالوں کو بھی چاندی نہیں بخشتی۔
مادھوری، ارمیلا، فرزین خان یہ بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ناظم حکمت، نزار توفیق قبانی، محمود درویش، رسول حمزہ توف، احمد شاملو اور خود جمال احسانی ۔۔۔ جانے سے کون بچ پاتا ہے!
لیکن جانے سے پہلے رخصت لینا اور الوداع کہنا ۔۔۔ یہ چیز جگرا مانگتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاملے میں بچے شہزادے ہوتے ہیں۔ نانی گھر سے واپس جا رہے ہیں، مڑ مڑ کے دیکھ رہے ہیں، یہ موٹے موٹے آنسو آئے ہوئے ہیں آنکھوں میں، جو ڈھیٹ ہیں وہ ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں، کوئی چیخ رہا ہے اور کوئی ’چیجی‘ ملنے کے لالچ میں اماں ابا کے ساتھ چُپ چاپ جا رہا ہے۔
جذبوں کا خالص پن بچوں سے زیادہ کہیں مل ہی نہیں سکتا۔ ہم لوگ بڑے ہو جاتے ہیں تو گانے سنتے ہیں، بار بار پرانے خط، میسج پڑھتے ہیں، موڈ خراب بھی ہوتا ہے تو آس پاس دیکھتے رہتے ہیں، محتاط ہو جاتے ہیں کہ پتہ نہ لگ جائے کسی کو اور کوئی پوچھ ہی نہ لے۔
کوئی پوچھ لے تب بھی ایک الگ طوفان ہوتا ہے، نہ پوچھے تو خیر، جو کچھ چل رہا ہے اس نے رکنا تو اپنی مرضی سے ہے۔
امجد اسلام امجد نے بس حق ادا کر دیا۔
کسی کو الوداع کہنا | بہت تکلیف دیتا ہے | امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں | یقیں پہ بے یقینی کا کہر کچھ ایسا چڑھتا ہے | دکھائی کچھ نہیں دیتا، سجھائی کچھ نہیں دیتا | دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں | کسی خواہش کے اندیشے | ذہن میں دوڑ جاتے ہیں | گماں کچھ ایسے ہوتا ہے| کہ جیسے مل نہ پائیں گے | یہ گہرے زخم فرقت کے کسی سے سل نہ پائیں گے | کبھی ایسا بھی ہو یا رب | دعائیں مان لیتا ہے | تُو کوئی معجزہ کر دے تو ایسا کر بھی سکتا ہے | مرے ہاتھوں کی جانب دیکھ انہیں تو بھر بھی سکتا ہے | جدائی کی یہ تیکھی دھار دلوں کا خون کرتی ہے | جدائی کی اذیت سے | میرا دل اب بھی ڈرتا ہے | جدائی دو گھڑی کی ہو تو کوئی دل کو سمجھائے | جدائی چار پل کی ہو تو کوئی دل کو بہلائے| جدائی عمر بھر کی ہو تو کیا چارہ کرے کوئی | کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جیئے کوئی | مرے مولا کرم کر دے تو ایسا کر بھی سکتا ہے | میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ، انہیں تو بھر بھی سکتا ہے۔