پاکستان میں نجی سکولوں کی بھاری بھرکم فیسوں سے تنگ والدین دوسال سے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ بالآخر سپریم کورٹ نے گذشتہ ہفتے فیصلہ سنا دیا جس میں لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیتے ہوئے ایجوکیشن ایکٹ کی شق 7A بحال کر دی گئی ہے۔ اس شق کے مطابق پرائیویٹ سکولوں کو 20 یا 25 فیصد کی بجائے 05 سے 08 فیصد تک سالانہ فیس بڑھانے کی اجازت ہو گی۔ نجی سکولز مالکان نے اس فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے کر اس کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب سمیت تمام صوبوں میں پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی بناکر فیسوں اور دیگر شکایات کا ازالہ کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
عدالتی کارروائیاں:
پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں سے تنگ والدین نے گذشتہ برس لاہور ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ گذشتہ چار برسوں میں سکولوں نے 50 سے 60 فیصد تک فیسوں میں اضافہ کیا اور چھٹیوں کے باوجود فیسیں بھی وصول کی گئیں۔
سالانہ فیسوں میں اضافے کو کم کرنے اور سالانہ متفرق فنڈز میں کمی کرانے کی استدعا بھی بار بار کی گئی۔ ان عدالتوں نے پرائیویٹ سکول مالکان کو فیسیں کم کرنے اور سالانہ فنڈز نہ بڑھانے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپریل 2018 کےتفصیلی فیصلے میں پرائیوٹ سکولوں کی انتظامیہ کو ماہانہ فیسیں بہت زیادہ بڑھانے کی بجائے ان میں صرف 05 سے 08 فیصد تک اضافے کا حکم دے کر اس پر عمل درآمد کرانے کی ہدایت بھی کی تھی۔ عدالت نے سکول مالکان کی نگرانی کے لیے پرائیویٹ سکول ریگولیٹری اتھارٹی بنانے اور چھٹیوں کی فیسوں میں 50 فیصد کمی کر کے وصول کردہ گرمیوں کی چھٹیوں کی آدھی فیسیں واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے سکول مالکان کی درخواست پر ایجوکیشن ایکٹ کے آرٹیکل 7Aکو بھی معطل کر دیا تھا۔
اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث طالب علموں کے والدین نے سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کیا اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دیا تو سکول مالکان نے سپریم کورٹ میں اس فیصلہ کو چیلنج کر دیا گیا تھا۔
اس مرتبہ اپیل میں والدین بھی درخواست دے کر کارروائی کا حصہ بنے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے بھی معطل شدہ شق 7A کی بحالی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تمام متفرق درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرتے ہوئے گذشتہ بدھ کو مختصر فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے نجی سکولوں کی فیسوں کے کیس میں 5 فی صد سے زائد اضافے کو ریگولیٹر کی اجازت سے مشروط کردیا۔ عدالت گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس وصول نہ کرنے اور 20 فیصد کمی کے حکم ناموں کو واپس لے لیا۔ تاہم عبوری حکم نامے کے تحت کم کی گئی فیسوں کی دوبارہ وصولی نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس فیصل عرب نے فیصلہ سے اختلافی نوٹ لکھا۔ مختصر تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے 13 دسمبر 2018 سمیت تمام عبوری حکم نامے واپس لیتے ہوے فیسوں میں 20 فیصد کمی کے فیصلے کو مشروط غیر موثر کر دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ تعلیمی سال سے سکولوں کی فیسوں کا تعین دوبارہ کیا جائے گا تاہم عبوری حکم نامے کے تحت کم کی گئی فیسوں کی والدین سے دوبارہ وصولی نہیں کی جائے گی۔
فیسوں میں اضافے کے حوالے سے کہا گیا کہ نجی سکول اپنی فیسوں میں سالانہ پانچ فیصد اضافہ کر سکتے ہیں اس سے زائد اضافے کے لیے ریگولیٹر سے اجازت لینا ہو گی ۔
جسٹس فیصل عرب نے فیسوں میں اضافے کی حد کے تعین سے اختلاف کیا۔ مختصر فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا فیصلے کی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گئیں۔
والدین عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کے خواہاں:
فیسوں میں اضافے سے متعلق والدین کی نمائندہ پیرنٹس ایکشن کمیٹی کی کنوینر فائقہ سلمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کے والدین سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خوش ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ اس فیصلے پر بھی پہلے فیصلوں کی طرح عمل درآمد مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی عدالتوں نے فیسوں میں اضافہ نہ کرنے کی ہدایت کی تھی اور چھٹیوں میں وصول کردہ 50 فیصد فیسیں واپس کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اکثر بڑے نجی سکولوں نے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا تھا۔
90 دن میں سکولوں کو مانیٹر کرنے کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا حکم بھی ہوا میں اڑا دیا گیاتھا اور اس پر عمل درآمد کی اب بھی امید نہیں کیونکہ موجودہ حکومت کی اس سمت کوئی دلچسپی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دو سال سے اس معاملہ پر عدالتی احکامات جاری ہورہے ہیں لیکن سکول انتظامیہ قانونی راستے نکال کر اپنا دفاع کرتی ہے۔
سکولوں کی انتظامیہ عدالتی حکم کے باوجود فیسوں میں اضافے سے روکنے پر ملازم اساتذہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنے لگی ہے جس سے تعلیم کا معیار گر رہا ہے اور اس کا نقصان بھی بچوں کو ہورہا ہے۔
پرائیوٹ سکولوں کے تحفظات:
سپریم کورٹ کے فیصلے پر پرائیویٹ سکول مالکان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیسوں میں اضافہ اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے پرائیویٹ سکولوں پر مختلف ٹیکس عائد ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمارت کے کرائے اور اساتذہ کی تنخواہ میں 10 فیصد اضافہ سالانہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں دو لاکھ سے زائد پرائیویٹ سکول ہیں لیکن ان میں سے 98 فیصد 5000 سے کم فیس لیتے ہیں جبکہ 15 لاکھ اساتذہ ایسے ہیں جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی سکولوں مثلا ایچیسن، صادق پبلک سکول، لارنس کالج اور ڈی پی ایس وغیرہ میں لاکھوں روپے سمسٹر فیس وصول کی جاتی ہے، جبکہ بڑے پرائیویٹ سکول چینز بیکن ہاوس، ایل جی ایس، لکاس، فروبلز، لاہور امریکن سکول و دیگر کی فیسیں 20 ہزار روپے ماہانہ سے شروع ہوتی ہیں۔
کئی سکول ڈالروں میں فیسیں وصول کرتے ہیں اور تمام بڑی سکول چینز نے ہر کلاس کی الگ فیس مقرر کر رکھی ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق بڑے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ سکول چینز پر نہیں ہوسکتا؟
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکل 8 اور 1984 کے تعلیمی ایکٹ سے متصادم ہے جس میں پرائیویٹ کاروبار کو متعلقہ محکموں کے اصولوں سے چلانے کی اجازت دی گئی ہے لہذا اسے چیلنج کیا جائے گا۔
پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں اضافہ کا جائزہ:
20 ہزار روپے ماہانہ فیس لینے والے سکول اگر 05 فیصد اضافہ کرتے ہیں تو فیس21 ہزار جب کہ آٹھ فیصد اضافہ کرنے کی صورت میں 21 ہزار تین سو روپے فیس ہوجائے گی۔
15 ہزار روپے ماہانہ فیس 05 فیصد اضافہ سے 750 روپے بڑھے گی جب کہ 08 فیصد اضافہ کے بعد وہ 16 ہزار دو سو روپے ہو جائے گی۔
10 ہزار روپے فیس میں 05 فیصد اضافے کے بعد 500 روپے جب کہ 08 فیصد کے بعد 800 روپے کا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح 5000 روپے ماہانہ فیس 05 فیصد اضافے سے 5250 روپے ہو جائے گی۔
سرکاری وضاحت:
صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں لیکن جو سکول سہولیات اور تعلیمی معیار کے مطابق فیسیں وصول کر رہے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی مشکل ہے۔ تاہم حکومت پرائیویٹ سکولوں کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین کی مرضی سے انہیں تعلیمی اخراجات کے پیش نظر فیسوں میں معقول اضافہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔