ایران کی جانب سے برطانیہ میں مقیم متعدد افراد کو ممکنہ خطرات کے پیش نظر پولیس کے مشورے پر لندن سے چلنے والے فارسی زبان کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے مجبوراً اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی نے ایک بیان میں کہا، ’ایران کی طرف سے ریاستی حمایت یافتہ دھمکیوں میں نمایاں اضافے اور میٹروپولیٹن پولیس کے مشورے کے بعد ایران انٹرنیشنل ٹی وی نے نہ چاہتے ہوئے اپنے لندن سٹوڈیوز کو بند کردیا ہے اور نشریات واشنگٹن ڈی سی منتقل کردی ہیں‘ جہاں سے نشریات بلا تعطل جاری رہیں گی۔
اس اقدام سے ایک ہفتہ قبل پولیس نے 30 سالہ آسٹریا کے شہری ماگومیڈ حسین ڈوویٹیف کو پولیس کے مطابق مبینہ طور پر ’ایسی معلومات جمع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جو دہشت گردی کی کارروائی یا اس کی تیاری کرنے والے شخص کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔‘
کمپنی نے مزید کہا، ’خطرات اس قدر بڑھ گئے تھے کہ چینل کے عملے اور دیگر ملازمین کی چسوک بزنس پارک اور عوامی مقامات پر حفاظت ناممکن لگ رہی تھی۔‘
After a significant escalation in state-backed threats from Iran and advice from @metpoliceuk, Iran International TV says it has reluctantly closed its London studios and moved broadcasting to Washington DC.
— Iran International English (@IranIntl_En) February 18, 2023
Read our General Manager's statement here.https://t.co/j3mzLmU22Z pic.twitter.com/SlLEyVv31u
مئی2017 میں شروع ہونے والا ایران انٹرنیشنل حکومت مخالف مظاہروں کو وسیع کوریج دیتا ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر مغربی لندن میں 12 عمارتوں پر مشتمل ایک کمپلیکس میں ہے۔ اس کمپلیکس میں متعدد غیر ملکی اور عالمی کمپنیاں ہیں جن میں دنیا بھر سے ہزاروں افراد پر مشتمل عملہ کام کرتا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ اسسٹنٹ کمشنر میٹ جوکس کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ ہفتے اس علاقے میں ایک شخص کی گرفتاری کے بعد جاری تحقیقات کی روشنی میں اور غیر معمولی حفاظتی اقدامات کے باوجود ہمیں اب بھی اس کمپنی میں کام کرنے والے افراد کی حفاظت کے حوالے سے سنگین خدشات ہیں۔‘
نومبر میں پولیس نے رکاوٹیں اور سکیورٹی چیک لگائے اور مسلح افسران کو چینل کی عمارت کے ارد گرد تعینات کیا تھا۔
Specially trained #ProjectServator officers working together with security @CP_EW at Chiswick Business Park #TogetherWeveGotItCovered pic.twitter.com/c96zs7o1uJ
— Hounslow Police (@MPSHounslow) February 3, 2023
اسسٹنٹ کمشنر نے تصدیق کی کہ (چینل کی) منتقلی کے باوجود، مقامی افراد کو ’یقین دلانے‘ کے لیے ’حفاظتی اقدامات‘ برقرار رہیں گے۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی کے جنرل منیجر محمود عنایت نے کہا، ’مجھے یقین نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوگا۔ ایک غیر ملکی ریاست نے برطانوی سرزمین پر برطانوی عوام کے لیے اتنا بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا۔‘
انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’یاد رکھیں کہ یہ صرف ہمارے ٹی وی سٹیشن کے لیے نہیں بلکہ برطانوی عوام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ خودمختاری، سلامتی اور اظہار رائے کی آزادی کی اقدار پر حملہ ہے جو برطانیہ کو ہمیشہ سے عزیز ہے۔‘
وولنٹ میڈیا، جو کہ ایران انٹرنیشنل ٹی وی کا مالک ہے، کے میڈیا انچارج ایڈم بیلی نے عرب نیوز کو تصدیق کی کہ سٹیشن کی نشریات میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی اور اب یہ امریکہ میں موجود ان کے سٹوڈیوز سے جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وولونٹ میڈیا کی ملکیت افغانستان انٹرنیشنل بھی چیسوک میں اسٹوڈیوز سے کام کر رہا ہے لیکن ایران انٹرنیشنل کے ملازمین اب گھر سے کام کر رہے ہیں۔
ایڈم بیلی نے کہا کہ ’بنیادی طور پر یہ ایک اور کوویڈ لاک ڈاؤن ’کی طرح‘ ہے، جس میں گھر سے کام ہو رہا ہے، کیوں کہ جب تک پولیس ہمارے لیے یہ بہتر سمجھتی ہے اس وقت تک یہ کرنا ہمارے لیے آسان اور محفوظ ہے۔
’خیال رہے کہ یہ ایک بڑا بزنس پارک ہے، ہم ایک عمارت کے صرف ایک حصے میں ہیں اور یہاں تقریباً 10 ہزار افراد ہیں، لہذا پولیس کو ناصرف ہماری بلکہ علاقے کی حفاظت کا خیال رکھنا ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطرے میں اضافہ کے باوجود، تمام عملہ محفوظ ہے، اور اگرچہ صورتحال ’بہت تشویش ناک ہے، ایک طرح سے کچھ بھی نہیں بدلا اور لوگ بس کام کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا یہ تبدیلی بھی عارضی ہے، اور باہر منتقل ہونے، بند کرنے یا عملے کو بٹھائے رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی کے عملے کا دعویٰ ہے کہ نشریات کے آغاز سے ہی انہیں دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایران میں ان کے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا گیا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ اسسٹنٹ کمشنر میٹ جوکس نے کہا کہ پولیس اور ایم آئی فائیو نے 2022 کے آغاز سے اب تک اس ایرانی حکومت کے دشمن سمجھے جانے والے برطانوی یا برطانیہ میں مقیم افراد کو اغوا یا قتل کرنے کے 15 منصوبوں کو ناکام بنایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ’خبر برطانیہ میں مقیم ایرانی تارکین وطن کے لیے بھی تشویش کا باعث ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کو اپنی یا کسی اور کی حفاظت کے بارے میں تشویش ہے تو اسے اپنی مقامی پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘