سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ایران ہے: آذربائیجان

آذربائیجان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگزان ہاسیزادہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملے کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔

آذربائیجان نے تہران میں اپنے سفارت خانے پر ہونے والے ’دہشت گرد‘ حملے کا الزام ایران پر لگاتے ہوئے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ وہ وہاں سے  اپنے عملے کو نکال رہا ہے۔

اس حملے میں سکیورٹی کے سربراہ ہلاک اور دو محافظ زخمی ہوئے ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہران پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حملہ کرنے والے شخص نے ’ذاتی‘ وجوہات کی بنا پر ایسا کیا۔

آذربائیجان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ایگزان ہاسیزادہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملے کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی میڈیا میں آذربائیجان مخالف حالیہ مہم نے ’حملے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘

ترجمان نے بعد میں ترک ٹی وی ٹی آر ٹی کو بتایا کہ سفارت خانے کے عملے کو ’ایران سے نکالا جا رہا ہے۔‘

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’میں اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘

اس سے قبل جمعے کو آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’کلاشنکوف بردار ایک شخص نے سفارتی مشن سکیورٹی سربراہ کو ہلاک کر دیا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور کے ہاتھوں زخمی ہونے والے دو محافظوں کی حالت تسلی بخش ہے اور تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس سے پہلے بھی ایران میں ہمارے سفارتی مشن کو دھمکیاں دینے کی کوششیں کی گئی ہیں اور ایسے حالات کو روکنے اور ہمارے سفارتی مشن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایران سے اپیل کی گئی تھی۔‘

’بدقسمتی سے، آخری خونی دہشت گرد حملہ ہماری فوری اپیلوں کے لیے مناسب حساسیت نہ دکھانے کے سنگین نتائج کو ظاہر کرتا ہے۔‘

تہران پولیس کے سربراہ جنرل حسین رحیمی نے بتایا کہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ ایک ایرانی شخص ہے جس کی شادی آذربائیجان کی ایک خاتون سے ہوئی ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے کہا ہے کہ ’تہران اس مسلح حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدقسمتی سے ایک شخص کی موت ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ ذاتی محرکات ہیں۔‘

ایران میں لاکھوں ترک بولنے والے آذربائیجانی رہتے ہیں۔ طویل عرصے سے تہران کا الزام ہے کہ باکو اس کے ملک میں علیحدگی پسند جذبات کو ہوا دے رہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات روایتی طور پر کشیدہ رہے ہیں اور سابق سوویت اور جمہوریہ ایران کے تاریخی حریف ترکی کا قریبی اتحادی ہے۔

تہران کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل آذربائیجان کی سرزمین کو ایران کے خلاف ممکنہ حملے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ اسرائیل باکو کو اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا سپلائر ہے۔

اے پی کے مطابق آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے ایک بیان میں کہا، ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس دہشت گرد کارروائی کی تحقیقات کی جائیں اور دہشت گرد کو سزا دی جائے۔ سفارتی مشنز کے خلاف دہشت گرد حملہ ناقابل قبول ہے۔‘

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔

آذربائیجان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ملک ترکی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور مستقبل میں اس طرح کے حملوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی ماضی میں اس طرح کے حملوں کا نشانہ بن چکا ہے اور آذربائیجان کے عوام کے درد میں برابر کا شریک ہے۔ برادر ملک آذربائیجان اکیلا نہیں ہے۔ آذربائیجان کے لیے ہماری حمایت جاری رہے گی۔

اس سے قبل ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے اپنے بیان میں آذربائیجان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’حملہ آور نے گارڈ پوسٹ کو توڑا اور ایک کلاشنکوف سے سکیورٹی کے سربراہ کو ہلاک کر دیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’حملے کو روکنے کے دوران سفارت خانے کے دو مزید محافظ زخمی ہوئے تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘

آذربائیجانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ’اس بزدلانہ حملے کی فی الحال تحقیقات کی جا رہی ہیں جو عوام کو فراہم کی جائے گی۔‘

ایران کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ کسی فریق نے فوری طور پر تہران میں حملے کی وجہ نہیں بتائی۔ 

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مبینہ طور پر جائے وقوعہ کی ویڈیو میں سفارت خانے کے بالکل اندر میٹل ڈیٹیکٹر کے پاس ایک لاش دیکھی جا سکتی ہے۔

آذربائیجان کی سرحد شمال مغرب میں ایران سے ملتی ہے۔ کاراباخ کے علاقے پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ کے باعث دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔

اے پی کے مطابق ایران نے اکتوبر میں آذربائیجان کی سرحد کے قریب ایک فوجی مشق کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد ملک گیر مظاہروں کے دوران اپنی جنگی طاقت کو بڑھانا تھا۔

آذربائیجان اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے جسے تہران اپنے اہم علاقائی دشمنوں میں سے ایک سمجھتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تہران اور باکو کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن حال ہی میں ایک جانب جب یوکرین کی جنگ عالمی سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے، جنوبی قفقاز کے خطے میں ایک اور تنازع جنم لے رہا ہے جہاں آذربائیجان اور ایران کے درمیان 2020 کی کاراباخ جنگ کے بعد سے تیزی سے دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جیو پولیٹکل مانیٹر کے مطابق آذربائیجان کی آرمینیا پر فیصلہ کن فتح کے بعد ایران کو یہ احساس ہوا کہ شمالی سرحد کے ساتھ اس کی سلامتی خطرے میں ہے کیونکہ کاراباخ جنگ سے تہران کو اپنے اہم علاقائی اتحادی آرمینیا کے ساتھ زمینی رابطوں کو خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ باضابطہ طور پر کاراباخ کو آذربائیجان کا ایک حصہ تسلیم کرتی ہے لیکن ایران نے آرمینیا کی جنوبی سرحدوں کے ساتھ متواتر نئے تنازعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 

آذربائیجان نے آرمینیا کے ساتھ 2020 کی جنگ کے بعد سے ایران کے ساتھ اپنی دشمنی کو راز نہیں رکھا یہاں تک کہ ’عظیم تر آذربائیجان‘ کے نقشے کو نمایاں کیا گیا ہے جس میں ایران کے شمالی صوبوں کے کچھ حصوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔

ایران کے شمال مغربی خطے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آذر باشندے آباد ہیں، جنہیں باکو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے۔

باکو اور تہران دونوں نے حالیہ کچھ سالوں میں ایک دوسرے کے خلاف سفارتی سطح پر نکتہ چینی کی ہے، جس نے کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا