پارلیمان، عدلیہ اور حکومت تیزی سے تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عدلیہ کی پارلیمان اور سابق منتخب وزرائے اعظم پر بلا جواز تنقید، پارلیمان کا جواب اور عدلیہ کی اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں مبینہ مداخلت، ایک بڑے ادارہ جاتی طوفان اور ٹکراؤ کا اشارہ دے رہی ہے۔
افسروں کی تعیناتی کے حکومتی اختیارات میں عدالتی مداخلت اور ایک آئینی ادارے کے سربراہ سے ایک ماتحت کی طرح سلوک کرنا اس ادارہ جاتی جنگ کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک جج کی ایک سیاست دان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو نے حکومت اور کچھ قانونی ماہرین کے ان شکوک کو تقویت دی ہے کہ کچھ جج اپنے حلف کے برخلاف سیاسی معاملات میں نہ صرف دلچسپی لیتے ہیں بلکہ فیصلے بھی انہی بنیادوں پر کرتے ہیں۔
یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
ان کے مطابق ہم خیال ججوں کا بینچ اعلیٰ عدلیہ کے وقار کو مزید نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ تاثر مضبوط کر رہا ہے کہ کچھ جج آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے من مانے فیصلے کر رہے ہیں اور ایک طرح سے آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس خدشے کا اظہار صرف حکومت اور عدالت سے باہر ہی نہیں بلکہ عدالت کے اندر سے بھی کچھ ججوں کے تحریری فیصلوں میں کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ان خدشات کو دور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے تو بعض قانونی ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اس منفی اور نقصان دہ تاثر کی اعلیٰ عدلیہ کی قیادت کو شاید فکر ہی نہیں ہے اور اسی لیے دوران سماعت غیر متعلقہ سوالات کیے جاتے ہیں یا غیر متعلقہ افراد کو طلب کر لیا جاتا ہے اور قوانین کی اس پامالی کا کسی کو احساس نہیں ہے۔
اسی طرح مختلف آئینی ماہرین کے مطابق سماعتوں میں آئین سے بالاتر مکالمات ادا کیے جاتے ہیں اور ایک پارٹی کا اپنی مرضی سے پارلیمان کو چھوڑنے کے باوجود پارلیمان میں کی جانے والی قانون سازی پر شک کے پتھر برسائے جاتے ہیں۔
جب صرف ایک سابق وزیراعظم کو ایماندار کہا جاتا ہے تو اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عدلیہ کی نظر میں موجودہ وزیراعظم ایماندار نہیں۔ یہ قانون دان سوال کرتے ہیں کہ کیا چیف جسٹس پارلیمان میں ایسے تبصرے عدلیہ کے لیے برداشت کریں گے۔ کیا عدلیہ اپنی کارکردگی کے بارے میں پارلیمان میں تبصرے سننے کو تیار ہے؟
اسی طرح کچھ ججوں کا کہنا کہ ہمیں اب جنرل الیکشن کی طرف چلے جانا چاہیے، کیسے ان کے حلف کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یہ ججوں کے اپنے طے کردہ ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے جو واضح طور پر کہتا ہے کہ انہیں عوامی تنازعات میں نہیں پڑنا چاہیے۔
اعلیٰ عدلیہ، پارلیمان اور حکومت کے درمیان جاری سرد جنگ اگر نہ رکی تو اس کے ملکی سلامتی پر بھی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آئین میں موجود طاقت کی تین حصوں میں تقسیم کے اصول پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ یہ اصول تمام جمہوری ممالک کے آئین میں پایا جاتا ہے جس میں کوئی ایک حکومتی ادارہ مکمل بالادست نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسرے ادارے کے دائرہ کار میں مداخلت کرتا ہے۔
ہمارے آئین کے مطابق طاقت کے تین منبعے پارلیمان، انتظامیہ اور عدلیہ اپنے دائرہ کار میں مکمل آزاد ہیں۔ پارلیمان کا کام قانون سازی ہے اور عدلیہ کا کام اس کی تشریح کرنا ہے۔ آئین اور قانون کی کوئی شق عدلیہ کو یہ اختیار نہیں دیتی کہ وہ خود قانون بنائے یا پارلیمان کے بنائے ہوئے کسی قانون کو مسترد کر دے یا پارلیمان کی نیت پر شکوک کا اظہار کرے۔
آئین کی کسی شق کے تحت عدلیہ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ پارلیمان میں جاری کارروائی پر کسی قسم کا قانونی اعتراض اٹھائے یا پارلیمان کے نگران سپیکر کو عدالت میں اس کے پارلیمانی کام کی وجہ سے طلب کرے۔ مگر حال ہی میں ایک نئی ناگوار غیر پارلیمانی روایت کی ابتدا کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کے سپیکر کو نوٹس جاری کیا ہے کہ آپ بتائیں کہ آپ نے کیسے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو تعینات کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر انتظامیہ مسلسل زیر عتاب ہے اور عدلیہ انتظامیہ کی کارکردگی پر مسلسل نوٹس لے رہی ہے اور اس وقت حکومت کو تقریباً عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔
یہ اقدامات کرتے ہوئے عدلیہ اپنے پاس زیرالتوا لاکھوں مقدموں کو کیوں بھول جاتی ہے۔ کیا ان مقدموں کے فیصلے میں دیر، نیب کے نئے قانون سے زیادہ انسانی حقوق کو متاثر کرتی ہے۔ کیا جسٹس شوکت صدیقی کے مقدمے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہ ہونے سے ان کے انسانی حقوق متاثر نہیں ہو رہے۔
ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کی تقسیم کے آئینی اصول پر عمل درآمد اور احترام کو یقینی بنایا جائے۔ پارلیمان کے کام میں کسی قسم کی بھی مداخلت نہ کی جائے اور اس کی قانون سازی کی نیت پر شک کرنا 22 کروڑ عوام کے فیصلے پر شک کرنے کے مترادف ہے۔
یقیناً عدلیہ میں بھی کامل فیصلے نہیں ہوتے ہوں گے مگر ان کی وجہ سے ججوں کی نیت پر شک کرنا عدلیہ کو بھی کبھی قبول نہیں ہو گا۔ اسی طرح پارلیمان کے تقدس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ میں بھی کسی ادارے کی طرح کالی بھیڑیں ضرور ہوں گی مگر اس کی وجہ سے ساری انتظامیہ کو بدعنوان، بد نیت یا نااہل قرار دینا ہے کسی طرح آئینی رویہ نہیں ہے۔
اگر ہم نے ایک جمہوری ملک کے طور پر آگے چلنا ہے تو ہمیں تمام آئینی اداروں کو آزادی سے کام کرنے دینا ہو گا اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالاتر ہو کر فیصلے صرف اور صرف آئین اور قانون کی بنیاد پر کرنے ہوں گے۔
اگر ایسا کرنے سے انکار کیا گیا تو نہ صرف اس ملک میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ ملک کی سلامتی بھی شدید خطرات میں گھر جائے گی۔ طاقت کے تینوں منبعے ملک کو اس طرف نہ لے جائیں جہاں عوام کا کسی ادارے یا خدانخواستہ ملک پر ہی اعتماد نہ رہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔