انگریزوں نے جب سکھر بیراج سے بلوچستان تک جانے والی این ڈبلیو کینال کھودنا شروع کی تو اس کے بیچوں بیچ ایک پرانی مسجد آ گئی جو اپنے شاندار ماضی اور تعمیرات کے باعث منفرد مقام رکھتی تھی۔
درگاہ امروٹ شریف کے سجادہ نشین مولانا سید تاج محمود امروٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’1921 میں جب دریائے سندھ پر سکھر کے مقام پر بیراج کی تعمیر ہوئی اور وہاں سے بلوچستان کو پانی کی فراہمی کے لیے کیرتھر کنال کے نام سے نہرنکالی جا رہی تھی تو اس کے راستے میں تین مختلف مساجد آ رہی تھیں، ان میں یہ مسجد بھی شامل تھی جو ’جونیجہ مسجد‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔
’مقامی افراد اپنے گھروں کو تو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو گئے مگر مسجد خالی کرنے اور اسے شہید کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہ ہوئے۔‘
مولانا سید تاج محمود امروٹی نے بتایا کہ ’جب مقامی انتظامیہ نے اسے شہید کرنے کے لیے حتمی تیاری کی تو اس وقت اس کی اطلاع (میرے دادا) حضرت سید تاج محمود صاحب کو ہوئی، انھوں نے غیر مسلح مزاحمت شروع کی جس کے بعد بالآخر انتظامیہ نے مسجد کو اس کی بنیادوں پر وہیں رہنے دیا اور ستون بنا کر اس کے اطراف سے پانی گزارا گیا، اس کے علاوہ مسجد تک جانے کے لیے ایک پل بھی تعمیر کیا گیا۔‘
غلام محمود امروٹی نے بتایا کہ ’مسجد میں پانچ وقت نماز کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ دور دراز سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مسجد تاریخ میں مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کی علامت کے طور پر جانی جاتی ہے۔‘
مسجد کی زیارت کے لیے آئی ایک مقامی خاتون نے انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہاں آ کر نوافل ادا کر کے اور زیارت سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درگاہ امروٹ شریف سے وابستہ خلیفہ عرفان امروٹی نے انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حضرت تاج محمود امروٹی 1919 میں تحریک خلافت میں خاصے سرگرم رہے اور انگریز حکمرانوں کے خلاف برسر پیکار رہے، وہ کلکتہ، بمبئی اور علی گڑھ تک بھی گئے۔ اس تحریک میں مسلمانوں کو قید و بند کی بہت سختیاں برداشت کرنا پڑی تھیں۔‘
درگاہ امروٹ شریف کے سجادہ نشین سید تاج محمود امروٹی (جن کا نام اپنے دادا کے نام سے منسوب ہے) نے بتایا کہ ’1921 میں جب انتظامیہ اس مسجد کو شہید کرنے پہنچے تو اس وقت قبلہ تاج محمود امروٹی نے افسروں کو خبردار کیا تھا۔‘