تحقیق ایک غلط سوال کی نہیں، پورے نظام کی کریں

کامسیٹس یونیورسٹی کا معاملہ تو محض ایک واقعہ ہے جو سوشل میڈیا پر آ گیا ورنہ ہماری جامعات میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کامسیٹس یونیورسٹی میں ایک لیکچرار کی جانب سے پیپر میں دیے گئے ایک سوال پر ہونے والی تنقید کے بعد واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جامعہ کے ریکٹر سے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سخت سزائیں دینے کا کہا ہے (تصویر: پکسابے)

پاکستانی سوشل میڈیا پر گذشتہ دو دنوں سے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرار کی شامت آئی ہوئی ہے، جنہوں نے اپنی ایک کلاس کے کوئز کے لیے سوال گوگل سے نقل  کیا تھا۔

کہتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ جانے وہ سوال نقل کرتے ہوئے لیکچرار کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔ اپنی ذہانت نہ سہی، مصنوعی ذہانت کا سہارا ہی لے لیتے۔ اسی سے پوچھ لیتے کہ فلاں ملک کے فلاں سطح کے طالب علم کو انگریزی میں مضمون لکھنے کے لیے کیا موضوع دیا جا سکتا ہے۔ کوئی صورت حال بھی دینی ہوتی تو اس سے پوچھی جا سکتی تھی۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

خیر، اس ملک میں یہ کر لیتے یا وہ کر لیتے والے سوالات کرنے کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ اس ملک میں زندگی گزارنا اپنے آپ میں ایک ایڈونچر ہے۔ یہاں کوئی بھی انسان، کسی بھی انسان کو، کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ سے، کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ہر روز کسی نہ کسی کی باری آئی ہوتی ہے۔ ان کی اب آئی ہے۔ ہماری اور آپ کی بھی ایک دن آ جائے گی۔ لیکن دوستو، حقیقت تو یہی ہے کہ اس لیکچرار نے بھی کبھی خود کو اتنے بڑے تنازع میں پھنستا ہوا نہیں سوچا ہو گا۔ ہم بھی نہیں سوچتے لیکن روزانہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی مشکل کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

سنا ہے کہ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جامعہ کے ریکٹر سے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں سخت سزائیں دینے کا کہا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی جا رہی ہے۔ پھر سے وہی سطحی باتیں۔

کامسیٹس یونیورسٹی کا معاملہ تو محض ایک واقعہ ہے جو سوشل میڈیا پر آ گیا ورنہ ہماری جامعات میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ اگر تحقیقاتی کمیٹی بنانی ہی ہے تو اس سے وہ کام لیں، جس سے ملک میں موجود اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر کرنے میں مدد ملے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی جامعات کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے۔ ہر جامعہ کے ہر شعبے میں شدید قسم کی سیاست ہوتی ہے۔ بعض جامعات میں کچھ سیاسی جماعتوں کے طلبہ ونگز کی بدمعاشی بھی چلتی ہے۔ استاد اور طالب علم کے درمیان صدیوں کا فاصلہ موجود ہے۔ بہت سے اساتذہ یونیورسٹی کے بنیادی نظم و ضبط کی پابندی ہی نہیں کرتے۔

بہت سے اساتذہ کو اپنے کورس کا وقت ہی پتہ نہیں ہوتا۔ وقت معلوم ہو تو کورس کی آؤٹ لائن کا ہی علم نہیں ہوتا۔ آؤٹ لائن کا علم ہو تو پڑھانے کا موڈ نہیں ہوتا۔ ان کے اپنے کام ہی اتنے ہیں کہ انہیں نوکری پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

غالباً ان صاحب سے بھی یہی کوتاہی ہوئی ہے۔ اصل معاملہ تو وہی جانتے ہیں۔ ہمارے کئی لیکچرار اور پروفیسر آن لائن کورسز سے مواد چرا کر طالب علموں کو پڑھانے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھی غالباً وہی کیا ہے۔ بس ذرا عقل استعمال کر لیتے تو آج اس جذباتی قوم کے غصے کا شکار نہ ہوتے۔

ہماری ادنیٰ رائے میں اس تحقیقاتی کمیٹی کو درج ذیل سوالات سے اپنے کام کی شروعات کرنی چاہیے:

  • پاکستانی جامعات کا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ ان کے مسائل کیا ہیں اور ان کے حل کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
  • پاکستانی جامعات میں فیکلٹی کی تقرری کا طریقہ کار کیا ہے اور اس طریقے پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے؟
  • کچھ جامعات میں فیکلٹی کی نشستیں سالہا سال خالی رہتی ہیں۔ ان پر وقت سے بھرتی کیوں نہیں ہوتی؟
  • جامعات اپنے شعبہ جات میں وزیٹنگ فیکلٹی کی تعیناتی کس طرح کرتی ہیں؟
  • مستقل یا عارضی طور پر بھرتی کی جانے والی فیکلٹی کی قابلیت کو کس طرح جانچا جاتا ہے؟
  • کیا ان کی تقرری کرتے ہوئے ان کی قابلیت کو دیکھا جاتا ہے یا تعلقات کی بنیاد پر انہیں بھرتی کر لیا جاتا ہے؟
  • کیا ان جامعات کے پاس اپنے اساتذہ کی تدریسی و تحقیقی ذمہ داریوں کو جانچنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے؟
  • اگر ہے تو کیا وہ اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں؟
  • کیا ان جامعات میں فیکلٹی ممبران کی تربیت کا کوئی نظام موجود ہے؟ اگر ہے تو وہ نظام کیا ہے اور اس کے تحت کب اور کیسے فیکلٹی ممبران کی تربیت کی جاتی ہے؟

ہمارے خیال میں آغاز کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ایک واقعہ ہو ہی گیا ہے تو اس کو بنیاد بنا کر کسی کی زندگی خراب کرنے سے بہتر ہے کہ اسے قانون کے مطابق سزا دے کر اپنی جامعات کے اصل مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔

ورنہ بہت سی جانیں گئیں، ایک یہ بھی چلی جائے گی۔ مسئلہ پھر بھی وہیں کا وہیں رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ