ماہرین موسمیات کے مطابق سال رواں کے دوران پاکستان کے میدانی علاقوں میں سردی ختم ہو چکی ہے، جو گذشتہ سالوں کی نسبت ایک غیر معمولی مظہر ہے۔
محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کے مطابق شمالی علاقہ جات میں فروری کے مہینے کے دوران اوسط درجہ حرارت 3 سے 6 ڈگری سیلسیس، جبکہ کراچی سمیت سندھ میں بارہ سے چودہ ڈگری رہتا ہے۔
کراچی میں تعینات محکمہ موسمیات کے چیف میٹرو لوجسٹ سردار سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پاکستان میں ماہ فروری کا شمار سرد مہینوں میں ہوتا ہے، لیکن رواں سال درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میدانی علاقوں (صوبہ سندھ، جنوبی پنجاب میں ملتان، ڈی جی خان، رحیم یار خان، بہاولپور اور بہاولنگر اور جنوبی بلوچستان کے میدانی علاقے لسبیلہ اور تربت) میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
’تو اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے میدانی علاقوں میں سے سردی ختم ہو گئی ہے۔‘
سردار سرفراز کے مطابق ملک کے شمالی اور پہاڑی علاقوں میں ابھی موسم سرد ہے لیکن وہاں بھی اس طرح کی سردی نہیں جو ماضی میں ماہِ فروری میں ہوا کرتی تھی۔
’اس وقت گلگت، بلتستان، کوئٹہ، چمن، ژوب، مری میں سردی ہے دن کے اوقات میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، صرف رات میں سردی کا احساس غالب رہتا ہے۔‘
چیف میٹ کا کہنا تھا: ’کراچی اور لاہور میں ان دنوں دھوپ کی تمازت میں اضافہ ہو ہوا ہے، لیکن اسلام آباد میں بارش کے بعد موسم ٹھنڈا رہا۔ بارش سے قبل شہر اقتدار کے درجہ حرارت میں بھی تین ڈگری کا اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔‘
سردار سرفراز نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ شمالی علاقوں میں مغربی سسٹم کے نتیجے میں 25 سے 27 فروری کے درمیان بارشوں کا امکان موجود ہے اور 28 فروری سے یکم مارچ تک شمالی بلوچستان گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی پھر سے بارشیں ہو سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں دسمبر اور جنوری سرد ترین مہینے ہوتے ہیں اور فروری کا شمار بھی ٹھنڈے مہینوں میں ہوتا ہے، جبکہ رواں سال فروری میں بعض جگہوں پر درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا کیونکہ گلوبل وارمنگ کے اثر کے تحت پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2019 کا فروری بھی معمول سے زیادہ گرم رہا تھا جب درجہ حرارت .07 ڈگری اوسط سے زیادہ تھا، جبکہ 2020 کے فروری میں یہی اضافہ.22 ڈگری تھا، جو 2021 میں بڑھ کر .99 ڈگری ہو گیا تھا۔
’ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 2022 کے فروری میں بھی اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا۔
چیف میٹرولوجسٹ نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں درجہ حرارت تقریباً ایک ڈگری سیلسیس بڑھا ہے جس کے نتیجے میں موسمی آفات کا سامنا ہے۔
’اگر یہ اضافہ بڑھ کر 10.2 ڈگریز تک چلا جاتا ہے تو ملک میں ناقابل یقین موسمی آفات کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا کے تقریبا دو سو ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے میں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موسم پر گہری نظر رکھنے والے ماہر جواد میمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ گذشتہ کئی سالوں کا ریکارڈ فروری کے دوسرے یا تیسری ہفتے میں موسم بہار کا آغاز نظر آتا ہے، لیکن اس سال غیر معمولی درجہ حرارت دیکھنے میں آیا ہے۔
’خصوصاً مٹھی میں 16 فروری کو چالیس ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا اور اسی طرح 20 فروری کو 38 ڈگری ریکار ڈ کیا گیا۔ یوں فروری کو دوسرا گرم ترین مہینہ تصور کیا گیا۔‘
ماہر موسمیات جواد میمن کے مطابق ’فروری میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافے کے مدنظر آنے والے مہینوں میں گرمی اپنے عروج پر ہو گی اور درجہ حرارت میں معمول سے زیادہ اضافے کا امکان ہے۔‘
دوسری جانب جواد میمن نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر مون سون سیزن میں بھی کافی حد تک تبدیلی دیکھنے میں آ سکتی ہے جس کے نتیجے میں بارشیں معمول سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔
ماہر ماحولیات مجتبیٰ بیگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فروری کے دوران درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس کی وجہ سے موسمی بے یقینی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ چار سو سے سوا چار سو ٹن کاربن خارج ہوتی ہے، جو دنیا کے دوسرے ملکوں سے بہت کم ہے۔
’لیکن دنیا کی کاربن کے اخراج کے اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں اسی لیے پاکستان پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان صنعتی طور پر بہت زیادہ ترقی یاقتہ ملک نہیں ہے اس لیے چار سو ٹن کاربن کا اخراج بھی زیادہ ہے، جس کی بڑی وجہ ملک میں ٹریفک کا دباؤ ہے ۔
مجتبیٰ بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمی اثرات بھگتنے والے ملکوں میں ساتویں نمبر پر ہے، جس کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر موسمی اثرات میں خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے، جن میں شمسی توانائی سے بجلی کی ضروریات پوری کرنا، الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں اضافہ اور ماحول دوست متبادل ذرائع توانائی کو اپنانا شامل ہیں۔