پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ ماہرین ماحولیات سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ ڈیڑھ ارب آبادی والے خطے میں گرمی کی حدت بڑھنے سے فصلوں اور انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔
رواں سال اپریل میں بھارت میں جو گرمی پڑی وہ گذشتہ 122 سال میں ایک نیا ریکارڈ ہے جبکہ پاکستان میں بھی اپریل اور مئی کے درجہ حرارت نے گذشتہ 61 سال کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں
پاکستان میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن پہلے ہی تیبیہ دے چکی ہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئر پھٹ سکتے ہیں جس سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ اس بیان کے چند دن بعد ہی گلگت بلتستان میں شیشپر گلیشیئر پر بننے والی جھیل پھٹ گئی اور اس سے آنے والا سیلابی ریلا شاہراہ ریشم پر حسن آباد کا تاریخی پل بہا لے گیا۔
پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اس کے ایک طرف چین ہے اور دوسری جانب بھارت، جو دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس لیے پاکستان پر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
برونل یونیورسٹی آف لندن سے ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر صبور جاوید نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں 80 فیصد اموات کی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔‘
ان کے مطابق فضا اور زمین میں زہریلا مواد خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ صنعتی کوڑا کرکٹ نے زیر زمین پانی کو ہی نہیں بلکہ زمین سے اگنے والی خوراک کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ اسی آلودگی کہ وجہ سے موسم بدل رہے ہیں، کہیں خشک سالی ہے تو کہیں سیلاب۔
بڑھتے درجہ حرارت کا مطلب زمین کی اوپری فضا میں قائم حفاظتی اوزون کی تہہ کمزور ہو چکی ہے جو ان زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
گرمی کی لہر کیسے بنتی ہے ؟
گرمی بڑھنا معمول کی بات ہے لیکن جب یہ کسی ایک علاقے کو منتخب کر لیتی ہے اور وہاں سے ہٹتی نہیں ہے تو کہا جاتا ہے کہ گرمی کی لہر چل رہی ہے۔
یہ گرمی اس علاقے کی ہوا پر دباؤ ڈال کر اسے معمول کی سطح سے اوپر لے جاتی ہے جس سے بادل بننے کا عمل بھی رک جاتا ہے، اور جب ہوا میں بادل نہیں بنتے تو سورج کی حدت زیادہ تیزی سے زمین کو متاثر کرتی ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب جو ہوا کو ٹھنڈا رکھتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے جس سے گرمی کا زور بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں اس سال پڑھنے والی گرمی خلاف معمول ہے اور اس نے ایک بہت بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہلے جو گرمی پڑتی تھی وہ اتنے بڑے علاقے کی بجائے چھوٹے چھوٹے علاقوں کو منتخب کرتی تھی۔
محکمہ موسمیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فاروق ڈار نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم اس وقت گرمی کی لہر کی وارننگ جاری کرتے ہیں جب پچھلے 30 سال کے اوسط درجہ حرارت سے اس دن کا درجہ حرارت چار سے چھ ڈگری اوپر چلا جائے ۔ یعنی میدانی علاقوں میں 40 اور پہاڑی علاقوں میں 30 ڈگری سیلسیئس سے درجہ حرارت اوپر چلا جائے تو ہم کہتے ہیں کہ گرمی کی لہر آ گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’یہ لہر عموماً مشرق وسطیٰ سے چلتے چلتے پاکستان اور بھارت کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ اس سال میدانی علاقوں میں سات سے نو ڈگری درجہ حرارت زیادہ ہے جو کہ شدید ترین گرمی کی لہر بتا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ لہر اگلے دو سے تین دن مزید چلے گی۔
اربوں کا نقصان اور 70 لاکھ زندگیوں کو خطرہ
پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان گذشتہ 20 سالوں میں ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تبدیلوں سے سالانہ سات سے 14 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
گذشتہ سال عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں اگلی دو دہائیوں کے دوران درجہ حرارت میں اڑھائی درجے سیلسیئس کا اضافہ ہو جائے گا جس سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہو گی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئر ہیں جو درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے تین ہزار سے زیادہ نئی جھیلیں بن چکی ہیں جن میں سے 36 ایسی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں۔ یہ جھیلیں اگر پھٹتی ہیں تو اس سے ندیوں اور دریائوں کے کناروں پر آباد 70 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلی دو سے تین دہائیوں میں گلیشیئر پگھلنے سے پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جیکب آباد جہاں اب انسانوں کا رہنا ممکن نہیں رہا
صوبہ سندھ کا ضلع جیکب آباد جس کی آبادی تقریباً دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے وہاں گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس تک چلا جاتا ہے جبکہ گذشتہ سال جون میں وہاں ریکارڈ توڑ گرمی پڑی اور درجہ حرارت نے 52 کے ہندسے کو چھو لیا۔ اس سال یہ ریکارڈ بھی ٹوٹنے کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے۔
جیکب آباد میں درجہ حرارت جس خطرناک حد کو چھو چکا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ جیکب آباد اب انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہی اور شہر کو کسی اور جگہ منتقل کرنا پڑے گا۔
پاکستان اور بھارت میں گرمی کی لہر مشرق وسطیٰ سے آتی ہے جہاں درجہ حرارت باقی دنیا کے مقابلے میں دوگنا بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ سال جون میں کویت میں درجہ حرارت 53.2 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی طرح عمان، عراق، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں درجہ حرارت 50 درجے سے اوپر تھا۔
مشرق وسطیٰ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے وہ علاقے جہاں پہلے ہی زیادہ گرمی پڑتی ہے وہاں اگلے سالوں میں درجہ حرارت مزید بڑھے گا۔
پاکستان کو کیا کرنا ہو گا؟
پاکستانی اعدادوشمار کے مطابق 75 سال پہلے آزادی کے وقت جنگلات اس کے مجموعی رقبے کے 33 فیصد علاقے پر تھے جو اب گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گئے ہیں۔ (اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن اسے 2.2 فیصد بتاتی ہے۔)
دنیا میں جنگلات مجموعی رقبے کی شرح 31 فیصد ہے۔ پاکستان کی پچھلی حکومت نے 2023 تک 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے پہلے مرحلے میں سوا تین ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ درخت قدرتی طور پر درجہ حرارت کو کم رکھنے کا ذریعہ ہیں۔
جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو لوگ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اے سی چلاتے ہیں جس پر توانائی کی کھپت ہوتی ہے۔ اس توانائی کا 60 فیصد پاکستان میں کوئلے، تیل اور گیس سے حاصل کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ذرائع درجہ حرارت کو کئی گنا مزید بڑھا دیتے ہیں۔
پاکستان کو اگلے سالوں میں جہاں بہت زیادہ درخت لگانے ہو گے وہاں اپنا انحصار گرین انرجی یعنی قابل تجدید توانائی پر بڑھانا ہو گا۔
پاکستان کا ماحولیاتی منصوبہ کیا ہے؟
پاکستان نے گذشتہ سال ایک پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔یہ دراصل عالمی سطح پر پاکستان کے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت پاکستان کو 2030 تک ماحول کے لیے نقصان دہ گیسوں کا اخراج 50 فیصد کم کرنا ہے، جس کے لیے اسے اپنی توانائی کا 60 فیصد متبادل اور ماحول دوست ذرائع سے پورا کرنا ہو گا، اور تمام گاڑیوں میں سے 30 فیصد کو بجلی پر منتقل کرنا ہو گا۔
اگر پاکستان 10 ارب درخت لگانے کا ہدف بھی حاصل کر لیتا ہے تو اس سے فضا میں موجود 148.76 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہو جائے گی۔ لیکن یہ ایک مشکل چیلنج اس لیے بھی ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت اور حکومتی ڈھانچہ دونوں ہی اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔