پچھلے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات اچانک رات 11 بجے زوردار فائرنگ کی آوازیں سن کر پہلے تو لگا کہ شاید دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔
تاہم تھوڑی دیر کے بعد علم ہوا کیونکہ کراچی کنگز پی ایس ایل میں روایتی حریف لاہور قلندرز سے جیت گئی ہے، اس لیے کراچی کنگز کے مداح ہوائی فائرنگ کر کے اپنی ٹیم کی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہوئی کہ ابھی تو پی ایس ایل کے لیگ میچز چل رہے ہیں، ابھی سیمی فائنل اور فائنل تک تو بات پہنچی نہیں جس کے لیے اس قدر خوشی کا مظاہرہ کیا جائے کہ ہوائی فائرنگ کر کے پورے محلے کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا جائے اور یہ بھی نہ سوچا جائے کہ یہ ہوائی فائرنگ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتی تھی۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی خوشی کا موقع ہو اس کو منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کا بے دھڑک مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
خوشی کے موقعے کو ہوائی فائرنگ کر کے ماتم میں تبدیل کرنے کی رسم نہ جانے کب کس وقت ہمارے ہاں شامل ہو گئی۔
لیکن اب تو جیسے لازم ہو گیا ہے کہ نئے سال کاآغاز رائفل اور کلاشنکوف کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے ساتھ ہی ہو گا جبکہ شادی ہو یا پھر جشن آزادی ہوائی فائرنگ لازمی ہے۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ بلاوجہ چلنے والی گولیاں نہ جانے کتنے لوگوں کو زخمی کردیتی ہیں اور نہ جانے کتنے ہی لوگ ان اندھی گولیوں کی وجہ سے جان سے جاتے ہیں۔
پاکستان میں نئے سال کے پہلے دن خبروں میں نمایاں ایک خبر یہ بھی ہوتی ہے کہ نئے سال کے جشن کے موقعے پر کی گئی فائرنگ کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہو گئے ہیں جن کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے ان زخمیوں میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہوتے ہیں۔
کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں ان پر مقدمات بھی درج کیے جاتے ہیں لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ اگلے سال پچھلے سال سے بھی زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے۔
انتظامیہ اور پولیس کے دعوے کہ ہم اس سال کسی کو قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے فضا میں پھیلی گولیوں اور بارود کے دھوئیں میں گم ہو جاتے ہیں۔
شادیوں کے فنکشنز کی بات کرلیں تو لگتا یوں ہے کہ جب تک ہوائی فائرنگ نہیں کی جائیگی یہ فنکشنز مکمل نہیں ہوں گے۔ رات گئے سناٹوں میں ہونے والی ہوائی فائرنگ دور تک سنی جاتی ہے۔
لیکن یہ آوازیں قریبی تھانے تک یا پھر گشت کرتے پولیس اہل کاروں کو سنائی تبھی دیتی ہیں جب تک اس ہوائی فائرنگ کا نشانہ کوئی معصوم جان نہ بن جائے۔
صرف ایک ہفتے کے دوران ہی کراچی میں شادی کی تقریبات میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کا نشانہ ایک دس سالہ کا بچہ اور ایک دو سال کا بچہ بن چکے ہیں۔
یہ اندھی گولیاں کسی کارپارکنگ میں بچے کی جان لےجاتی ہیں تو کبھی بازار میں کسی بچے کی جان لیتی ہیں۔
کون سوچے گا کہ شادی کی تقریب میں جانے والا دو سال کابچہ شہر کے پوش ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں اندھی گولی کا نشانہ بن کر اپنی ماں کو روتا چھوڑ دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔
کون سوچے گا کہ نامعوم سمت سے چلی اندھی گولی لگنے سے ہائی روف میں موجود چھ سالہ بچہ گولی لگنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
ایک کے بعد ایک اندھی گولیاں لگنے سے بچوں سمیت متعدد افراد زخمی اور ہلاک ہو رہے ہیں لیکن پولیس کو نہ ہی سراغ مل رہا ہے اور نہ ہی تادم تادم تحریر کسی کی گرفتاری ممکن ہو سکی۔
یہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کس کو اپنا نشانہ بنادیگی اس کا علم نہ ہی چلانے والے کو ہوتا ہے اور نہ ہی اس کو جو اس گولی کے نشانے پر آ جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں قانونی طور پر تو ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش پر پابندی ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 337H سب سیکشن 2 کے تحت ہوائی فائرنگ کرنے والے پر جرمانے اور تین ماہ قید کی سزا ہے، جبکہ اسلحہ کی نمائش کرنے پر اسلحہ آرڈیننس کے تحت تین سال تک سزا ہو سکتی ہے۔
لیکن قانون پر عمل در آمد کتنا کیا جاتا ہے وہ مختلف مقامات اور تقریبات میں ہونے والی ہوائی فائرنگ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
لگتا تو یوں ہے کہ ہمارے اندر احساس ذمہ داری نام کی کوئی چیز رہ نہیں گئی ہے، بس وحشت اور بے حسی ہے جو ہمارے اندر رچ بس گئی ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاتھ میں ہتھیار ہونا طاقت کی علامت نہیں ہے بلکہ اس کا ذمہ داری سے استعمال طاقت کی علامت ہے۔
کم از کم خوشی کے موقع کو کسی کے لیے ماتم میں تبدیل مت کریں۔
اپنی حفاظت کے لیے قانونی اسلحہ ہونا برا نہیں ہے لیکن غیر قانونی اسلحہ ہونا اور شو آف کرنا درست نہیں ہے۔
یہ تو سوچ لیں کہ آپ کی رائفل کلاشنکوف یا پستول سے بلاوجہ چلنے والی اندھی گولی نہ جانے کس ماں کی گود اجاڑ دے، کس کا ہنسا بستا گھر تباہ کردے۔
ہوائی فائرنگ کرنا جرم ہے اور قانون توڑنے والون کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔ قانون پر عمل در آمد کرانا پولیس کی زمہ داری ہے اگر وہ اس میں ناکام ہو رہے ہیں تو ان سے بھی سوال ہونا چاہیے۔