گذشتہ پانچ سالوں سے کراچی میں بطور آن لائن ٹیکسی ڈرائیور کام کرنے والی شازیہ کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔
ابتدا میں انہوں نے سوچا کہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں تو کیا کریں گی، لیکن پھر ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نا وہ شوق سے سیکھی ہوئی ڈرائیونگ کو اپنا ذریعہ معاش بنائیں۔
آج وہ باقاعدہ ڈرائیونگ کر کے اپنی روزی کما رہی ہیں۔ وہ ایک آن لائن ایپ کے ذریعے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں، جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہوتے ہیں۔
شازیہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کی کہانی ڈرامہ سر راہ میں صبا قمر کے کردار سے مشابہت رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ڈرامے کی چند اقساط دیکھ چکی ہیں اور صبا قمر کے کردار میں وہ اپنی جھلک دیکھتی ہیں۔
’ایک دن مجھے میری دوست کی کال آئی، اس نے کہا شازیہ ایک نیا ڈرامہ آیا ہے، اس کی کہانی تمھاری زندگی کی اصل کہانی سے ملتی ہے تم لازمی دیکھو۔
’میں نے ڈرامہ دیکھا تو مجھے حیرانی ہوئی، لگا کہ جیسے یہ میری کہانی ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شازیہ نے بتایا کہ ڈرامے کے بہت سے مناظر اور واقعات ان کی حقیقی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں۔
’ایک مرتبہ ایک مسافر فرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھ گیا، چونکہ وہ اکیلا تھا تو میں نے اس سے کہا کہ سر پیچھے بیٹھ جائیں، جس پر وہ کہنے لگا کہ مجھے فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھنا ہے۔
’جواباً میں نے مسافر کو تلخ لہجے میں نیچے ساتھ اترنے کو کہا اور رائڈ کینسل کر دی۔‘
انہوں نے مزید گفتگو میں بتایا کہ کئی مرتبہ لوگ تفریحاً رائڈ لیتے ہیں خاتون ڈرائیور دیکھ کر۔
’وہ سارے راستے فرنٹ شیشے میں گھورتے اور مسکراتے ہیں۔ ایسے میں میں شیشہ کسی اور جانب کر دیتی تھی۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں خود کو مرد سمجھنے لگی اور اپنے اندر کی گھبراہٹ، ڈر اور ہچکچاہٹ کو نکال باہر کیا۔ اب الحمد اللہ میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا گھر چلا رہی ہوں۔‘
شازیہ کے مطابق شروع میں گھر والوں اور رشتے داروں نے ان پر تنقید کی کہ خاندان میں کسی نے یہ کام نہیں کیا اور یہ کہ لوگ کیا کہیں گے۔
’اس وقت میں نے کسی کی نہ سنی کیوں کہ میں اپنی زندگی کا بوجھ کسی اور پر ڈال کر انحصار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’میرے شوہر نے مجھے سپورٹ کیا تو اب میں بھی ان کو سپورٹ کررہی ہوں۔ میں نے اپنی جمع پونجی سے استعمال شدہ گاڑی خریدی اور اب یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔‘
شازیہ کا کہنا تھا کہ ’اچھے برے ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں لیکن اچھوں کے ساتھ اچھا اور بروں کے ساتھ سخت رویہ رکھتی ہوں۔‘
انہوں نے دوسری خواتین کو پیغام دیا کہ محنت میں کوئی شرم نہ کریں۔
’اپنے ہنر کو طاقت بنائیں اور زندگی کے اس میدان میں خود کو ایسا کھلاڑی بنائیں جو کبھی ہار نہ مانتے ہوئے فاتح حاصل کرے۔‘