جب کوئی ٹیکسی والا نیلوفر کی ساتھی لڑکیوں کو چھوڑنے پہ آمادہ نہ تھا

نیلوفر طالبان کے خلاف ہر فورم پر بہت سخت، واضع اور دوٹوک مؤقف لیتی رہی ہیں اس لیے طالبان کی آمد کے بعد سے وہ سخت پریشان ہیں اور اس وقت اپنا گھر چھوڑ اور دفتر چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر پناہ گزین ہیں۔

نیلوفر کو اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کی بھی فکر لاحق ہے، اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کابل چھوڑتی ہیں تو یہ ان لڑکیوں کو دھوکا دینا ہوگا۔(تصویر: حسن کاظمی)

 

تین بچوں کی والدہ 28 سالہ نیلوفر ایوبی کی مشغول زندگی یک دم پلٹ گئی جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 15 اگست کو طالبان بنا کسی مزاحمت کے داخل ہوگئے۔

طالبان کی آمد سے قبل نیلوفر ایوبی کابل میں میں ایک کامیاب زندگی گزاررہی تھیں، وہ میڈیا پر خواتین کے حقوق سمیت کئی سماجی مسائل پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ لیتی تھیں، سوشل میڈیا پر متحرک تھیں، یہاں تک کہ انہوں نے گزشتہ برس ہی ایک سوشل میڈیا میں بھرپور حصہ لیا تھا ہیش ٹیگ تھا #نامم-کجاست #WhereIsMyName

کیونکہ افغانستان میں بہت سے لوگ اپنے گھر کی خواتین کا نام اجنبی مردوں کے سامنے نہیں لیتے اس لیے یہ مہم چلائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ 2018 میں انہوں نے کابل میں پہلا کامیاب خواتین کا میلہ یا فیسٹیول بھی منعقد کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

نیلوفر طالبان کے خلاف ہر فورم پر بہت سخت، واضع اور دوٹوک مؤقف لیتی رہی ہیں اس لیے طالبان کی آمد کے بعد سے وہ سخت پریشان ہیں اور اس وقت اپنا گھر چھوڑ اور دفتر چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر پناہ گزین ہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نیلوفر ایوبی نے بتایا کہ طالبان کے کابل میں داخلے کی خبر ان پر بجلی بن کر گری۔ اگرچہ ان کا کہنا ہے کہ صوبہ ہیرات پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ہی وہ کافی پریشان تھیں اور انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے بچوں کے پاسپورٹ تیار کروالیں گی۔

اسی سلسلے میں جس دن کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا وہ اپنے شوہر کے ساتھ بائیومیٹرک کروانے کے لیے متعلقہ دفتر میں تھیں، جہاں ان کی ایک دوست نے انہیں بتایا کہ وہ بینک گئی تھیں مگر پیسے اس لیے نہیں نکال سکیں کیونکہ بینک میں موجود اہلکار پیسے دینے کےلیے رشوت طلب کررہے تھے۔ اس دوران بینکوں کے باہر لمبی قطاریں لگ چکی تھیں اور عوام میں سراسیمگی پائی جاتی تھی۔

15 اگست کو صبح دس بجے تھے اور کابل کے بائیومیٹرک دفتر میں اس وقت ایک ہزار کے قریب لوگ اپنے شناختی کارڈ کے لیے موجود تھے۔ نیلوفر کے مطابق انہیں اندازہ تھا کہ کابل پر  جلد ہی طالبان قبضہ کرسکتے ہیں، مگر یہ سب اتنی جلدی ہوگا، اس کا کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔

جیسے ہی ان کا بائیومیٹرک کا عمل مکمل ہوا، انہیں ان کے شوروم سے فون آیا کہ طالبان کابل میں آگئے ہیں، اور ان کی دکان پر کام کرنے والی شیعہ ہزارہ لڑکیاں خوف سے رو رہی تھیں۔ نیلوفرایوبی نے اپنے شوہر اور بچوں کوگھر کی جانب روانہ کیا اور خود شوروم پہنچیں۔ کیونکہ ان کی کپڑوں اور قالین کی دکان تھی تو ان کے پاس عبایا اور حجاب موجود تھے، اس لیے ان لڑکیوں کو عبایا اور حجاب پہنے کا کہا اور ایک ماہ کی تنخواہ ان کے ہاتھ میں دی۔ پھر کوشش کر کے چھ لڑکیوں کو ٹیکسی میں ان کے گھر بھیج دیا جائے۔

نیلوفر ایوبی نے بتایا کہ شیعہ ہزارہ کابل کے مغربی حصے میں رہتے ہیں اور ان کی ساتھی لڑکیاں بھی وہیں رہتی ہیں، تاہم اس وقت تک پورے کابل میں طالبان کے قبضے کی خبر پھیل چکی تھی اس لیے کوئی بھی ٹیکسی والا، اس علاقے میں جانے کو تیار نہیں ہوا، یہاں تک کہ کرائے کے علاوہ پانچ ہزار افغانی کی پیشکش بھی کی، مگر خوف کی وجہ سے کوئی ایک بھی تیار نہ ہوا، کیونکہ ماضی میں شیعہ ہزارہ طالبان کا خاص ہدف رہے ہیں۔ پھر انہوں نے خود اپنی گاڑی میں ان لڑکیوں کو ان کےگھر چھوڑا۔

وہاں سے وہ اپنے دفتر آئیں جو ایک این جی او ہے اور ضروری کاغذات سنبھالے، اور اپنے گھر پہنچیں اور وہاں سے کپڑے اور ضروری سامان لےکر اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ نکلیں، مگر اس وقت تک اشرف غنی کابل چھوڑ چکے تھے اور کابل میں شدید افراتفری کا ماحول تھاسڑکوں پر ٹریفک مکمل جام ہوچکا تھا اس لیے انہیں گھر واپس آنا پڑا اور وہ کئی گھنٹوں بعد اپنے گھر سے نکل کر محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوسکیں۔

اسی دوران انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کو بھی بلایا اور وہ سب اس وقت اسی محفوظ مقام پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن سے اب تک ہر لمحہ ایک اذیت کا احساس دلا رہا ہے۔ ’ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چار دن نہیں بلکہ 40 سال بیت گئے ہوں‘۔

انہوں نے بتایا کہ دوستوں کے مشورے پر انہوں نے پہلے تین دن اپنا سارا سوشل میڈیا بند کردیا اور مکمل کنارہ کشی اختیار کرلی تھی، مگر تین دن کے بعد انہوں نے سوچا کہ اب انہیں کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔

’میں نے سقوطِ کابل سے ایک دن پہلے تک جتنے میڈیا انٹرویو دیے، سب میں کہا کہ میں افغانستان نہیں چھوڑوں گی، اور میں اب بھی نہیں چھوڑنا چاہتی، صرف مجھے اپنے بچوں کی فکر ہے، میں انہیں محفوظ رکھنا چاہتی ہوں۔‘

نیلوفر کو اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کی بھی فکر لاحق ہے، اور وہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ کابل چھوڑتی ہیں تو یہ ان لڑکیوں کو دھوکا دینا ہوگا۔

اسی لیے تین دن بعد انہوں نے اپنا سوشل میڈیا ایک بار پھر متحرک کیا ہے، تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ سال پہلے ایک گروہ نے ان کے سسر کو اغوا کرکے تاوان لے کر چھوڑا تھا، پھر ان کے گھر میں ڈاکا پڑا تھا اور کافی ساری رقم لوٹی گئی تھی، اسی طرح ایک گروہ کی جانب سے ان کے شوہر پر حملہ ہوا تھا، ان تینوں گروہوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا اور وہ جیل میں تھے، تاہم اب طالبان کی آمد کے بعد وہ چھوٹ گئے ہیں اور اب ان کے خاندان کو ان گروہوں سے بھی خطرہ ہے۔

’چار دن میں ہمارے دفتر پر چار مرتبہ دھاوا بولا گیا ہے، 15 سے بیس آدمی آتے ہیں اور تلاشی لے کر چلے جاتے ہیں، اگرچہ وہ دفتر ہم پہلے ہی خالی کرچکے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ کل کیا ہوگا، میرے بہت سے دوست میڈیا میں ہیں، سماجی طور پر متحرک ہیں، وہ سب غیر یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں، اسی لیے میں نے بولنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی شناخت نہ چھپانے کا فیصلہ کیا ہے، میں آواز اٹھاؤں گی، ہر سطح پر اٹھاؤں گی۔‘

نیلوفر ایوبی کے مطابق اس وقت کابل کے متمول علاقے میں کافی افراتفری ہے، وہاں کے رہنے والے سراسیمگی کی کیفیت سے دوچار ہیں، البتہ کم آمدنی والے علاقوں میں صورتِ حال کافی حد تک معمول پر آچکی ہے۔ شہر میں کھانے پینے کے سامان  کی دکانیں خصوصاً بیکریاں کھلی ہیں، کچھ ریسٹورانٹ بھی کھلے ہیں مگر زیادہ تر ڈیلیوری ہی کی جارہی ہے۔

 اس وقت شہر میں عبایا بیچنے والوں کی چاندی ہوگئی ہے، ہر کوئی عبایا خریدرہا ہے یا بنوا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کا کاروبار تو یقیناً ان کے ہاتھ سے جاچکا ہے، اس لیے انہیں اب مستقبل کا کوئی پتہ نہیں۔

’میرے دوست مجھے ’ایویکیوایشن فارم‘ بھیج رہے ہیں، مگر میں نے ابھی تک درخواست نہیں دی ہے، میری پوری زندگی یہاں ہے، مجھے اگر موقع ملا تو ان بکھرے کاموں کو نمٹاؤں گی۔‘

نیلوفر ایوبی نے کہا کہ وہ اشرف غنی کو کبھی معاف نہیں کریں گی، اسے کوئی معاف نہیں کرے گا، اس نے اپنی قوم کو دھوکا دیا ہے۔

 نیلوفر ایوبی 1993 میں قندوز میں پیدا ہوئیں جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی جب طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد انہیں آئی سی سی آر کا جانب سے اسکالرشپ ملی جس کے طفیل انہوں نے بھارت کے شہر پونے سے بی بی اے کیا۔ 2015 میں اپنے والد کی علالت کے سبب انہیں افغانستان واپس آنا پڑا تاہم والد کے انتقال کے بعد وہ ڈگری مکمل کرکے کابل آئیں جہاں ان کی شادی ہوئی اور وہ تب سے وہ یہیں مقیم ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین