رابعہ بانو کی بیٹی کی شادی جیسے جیسے قریب آ رہی تھی ان کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کیونکہ ان کے پاس عروسی لباس خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
یہ دسمبر کے اوائل کی بات ہے جب شادی میں محض دو ہفتے باقی تھے لیکن پھر ایک غیر متوقع مدد سے وہ اپنی بیٹی کے لیے عروسی لباس حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
انہوں نے دراصل یہ لباس ان جیسے غریب خاندانوں کی مدد کے لیے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے قائم کردہ ’ڈریس بینک‘ سے حاصل کیا تھا۔
بھارت میں شادی کی تقریبات میں رنگ برنگے ملبوسات کا استعمال عام ہے لیکن بہت سے خاندانوں کے لیے یہ موقع سماجی اور مالی دباؤ بھی ساتھ لاتا ہے جسے وہ بعض اوقات پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
دلہن کے لباس کی قیمت کم از کم پانچ ہزار سے لے کر لاکھوں روپوں تک ہوسکتی ہے۔ لیکن سستے سے سستا لباس بھی نچلے طبقے کے خاندانوں کے لیے بہت مہنگا ثابت ہو سکتا ہے جسے خریدنے کے لیے اکثر انہیں قرض کا سہارا لینا پڑا ہے جس کی ادائیگی میں سالوں لگ جاتے ہیں۔
بھارت میں دلہن کا خاندان عموماً شادی کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔ جنوبی ریاست تمل ناڈو کے ایک گاؤں میٹوپلائم میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والی رابعہ بانو اور ان کے شوہر کو معلوم تھا کہ وہ عروسی لباس سمیت شادی کے بنیادی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
رابعہ بانو نے عرب نیوز کو بتایا: ’میں اور میرا شوہر گاؤں کے ایک ریستوران میں ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں اور ہر روز 200 روپے کما پاتے ہیں۔ ان حالات میں عروسی لباس خریدنا ہماری دسترس سے باہر تھا۔‘
لیکن گذشتہ ماہ 13 دسمبر کو انہوں نے خوشی خوشی اپنی بیٹی کی شادی کر دی جس پر انہیں نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑا۔
یہ سب کچھ پڑوسی ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور نصر توتھا کی بدولت تھا جو ایسے لوگوں پر شادی کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایک خیراتی ادارہ چلاتے ہیں۔
رابعہ بانو نے کہا کہ ’تین دنوں کے اندر مجھے دلہن کا لباس بغیر کسی رقم اور ڈیلیوری چارجز کے مل گیا۔‘
نصر بھارت بھر میں تقریباً 300 ایسے خاندانوں کی اپنی ملبوسات کی خیراتی دکان سے مدد کر چکے ہیں جس کو وہ ’ڈریس بینک‘ کہتے ہیں۔
38 سالہ نصر نے کہا کہ اس اقدام کو شروع کرنے کا خیال، جو عطیات پر چلتا ہے، انہیں دو سال قبل آیا تھا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’میں بہت سے ایسے خاندانوں سے ملا جو اپنی بیٹیوں کے لیے عروسی لباس کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے تھے تو میں نے ان کی مدد کرنے کا سوچا۔‘
سوشل میڈیا کے ذریعے انہوں نے امیر خاندانوں سے اس مقصد میں مدد کرنے کے لیے کہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’شادی کی تقریب ختم ہونے کے بعد لوگ زیادہ تر عروسی ملبوسات کو دوبارہ استعمال نہیں کرتے اور وہ ساری زندگی بے کار پڑے رہتے ہیں۔ میں نے لوگوں سے انہیں عطیہ کرنے کی درخواست کی۔‘
گاؤں میں کرائے پر ایک دکان پر نصر کے پاس اب 600 عروسی لہنگے ہیں اور کہتے ہیں کہ عطیہ دہندگان ڈریس بینک کی مدد کے لیے خود ان تک پہنچتے ہیں۔
یہ ملبوسات عموماً عام لوگ یا بس ڈرائیور اپنے علاقوں میں ہونے والی شادیوں کے لیے مفت ڈیلیور کر دیتے ہیں۔ انہیں اسی طرح واپس کر دیا جاتا ہے۔
نصر نے کہا: ’مقامی لوگ میرا ساتھ دیتے ہیں اور وہ میرے فلاحی کام کو سراہتے ہیں۔ مجھے یہ کرنے میں خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے وہ نئی دلہنوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتے ہیں۔‘