سعودی عرب اور ترکی کے درمیان انقرہ کے مرکزی بینک میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ رقم 14 مئی کو ہونے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات سے قبل فروری کے تباہ کن زلزلوں اور بڑھتے ہوئے افراط زر کے تناظر میں مشکلات کا شکار ترک معیشت کو ایک سہارا دے گی۔
سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ نے کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک اور اس کے برادر عوام کے درمیان قریبی تعاون اور تاریخی تعلقات کا ثبوت ہے بلکہ سعودی عرب کی جانب سے ترکی کی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہار بھی ہے۔
استنبول میں دینامک یتیریم سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات انور اراکان نے عرب نیوز کو بتایا: ’سی بی آر ٹی میں سرمایہ کاری کی جانے والی پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری زلزلے کے بعد ہونے والے مالی نقصانات کے ازالے اور آنے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کی تیاری میں ترکی کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘
ابتدائی تخمینوں کے مطابق ترکی میں زلزلے سے ہونے والے نقصانات کی لاگت تقریبا 34 ارب ڈالر ہے جو اس کی سالانہ اقتصادی پیداوار کا تقریبا چار فیصد ہے۔
ترک انٹرپرائزاینڈ بزنس کنفیڈریشن نے اعدادوشمار کا تخمینہ 84.1 بلین ڈالر لگایا ہے۔
انور اراکان نے کہا، ’چونکہ ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ممکنہ طور پر اس سال 30 سے 40 ارب ڈالر کے درمیان ہوگا ، لہذا مالی وسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بھی معاشی نقصان کی مالی اعانت اور اس عرصے میں شرح تبادلہ کو مستحکم رکھنے کے لیے مالی مدد درکار ہوگی۔‘
گذشتہ سال ڈالر کے مقابلے ترک لیرا کی قدر میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے اور ملک کو گذشتہ پانچ برسوں میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بھی ملک کو شدید دھچکا لگا، جس کی وجہ درآمدات پر بہت زیادہ انحصار تھا۔ ترک لیرا کی قدر میں کمی اور افراط زر کی بلند شرح نے ملک میں گھریلو اخراجات کو متاثر کیا ہے۔
واشنگٹن میں عرب گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ریزیڈنٹ سکالر رابرٹ موگیلنیکی نے عرب نیوز کو بتایا: ’سعودی عرب کچھ عرصے سے علاقائی ایکٹرزکے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ اب توجہ کا مرکز ترکی ہے۔ سعودی عرب علاقائی لیڈرشپ کی حیثیت بچانے کی خاطر خطے میں اپنے کچھ مالی وسائل خرچ کرنے کو تیار ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’اس کے باوجود یہ اقتصادی مدد ایک ایسے وقت میں آئی جب ترکی بہت کمزور شراکت دار ہے اور اسے مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے بہتر تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے، ان نئے تعلقات کا تعین بڑی حد تک سعودی شرائط پر کیا جائے گا۔‘
تین مارچ کو، ترکی اور متحدہ عرب امارات نے تیل کے علاوہ تجارت پر محصولات میں 93 فیصد کمی کرنے اور آئندہ پانچ برسوں میں دوطرفہ تجارت کو 19 ارب ڈالر سے بڑھا کر 40 ارب ڈالر کرنے کے لیے ایک جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کی توثیق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں متوقع ہے۔
بلیو بے ایسٹ مینجمنٹ میں لندن میں مقیم ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے سٹریٹجسٹ ٹموتھی ایش نے کہا کہ سی بی آر ٹی میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر زلزلے کی سپورٹ کے لحاظ سے زیادہ اثر انداز نہیں ہوں گے، لیکن ترکی کی کرنسی اور سیاسی استحکام کا سہارا دینے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا، ’میرے خیال میں اس رقم کے ساتھ زلزلے سے ریلیف فراہم کرنے کے اور بھی براہ راست اور موثر طریقے موجود ہیں۔‘
ایش نے نشاندہی کی کہ تازہ ترین مالی معاہدے سے لیرا کو سہارا دینے میں مدد ملی گے جبکہ انتخابات سے قبل استحکام کا احساس ہوگا، اس طرح ترک صدر رجب طیب اردوغان کو ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے مدد ملے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد بن عبد الله الجدعان نے دسمبر میں ترکی کے مرکزی بینک میں رقم جمع کروانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
سعودی عرب خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد اور وزیر اعظم پرنس محمد بن سلمان کی ہدایت پر سعودی وزیر سیاحت سعودی فنڈ برائے ترقی (ایس ایف ڈی) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین احمد عقیل الخطیب نے ترکی کے مرکزی بینک کے گورنر شہاب کاوجیوغلو نے ملک کے مرکزی بینک میں پانچ ارب ڈالر جمع کروانے کے اہم معاہدے دستخط کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ ڈپازٹ سعودی عرب اور جمہوریہ ترکی اور اس کے برادر لوگوں کے درمیان قریبی تعاون اور تاریخی تعلقات کا ثبوت ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی ڈپازٹ سے انتخابات سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو اپنے لیے عوامی حمایت میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
نومبر 2022 میں ترک وزارت خزانہ نے بھی تصدیق کی تھی کہ دونوں ملک ڈپازٹ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔
گذشتہ سال میں معاشی بحران کے باعث ترکش لیرا کی قیمت میں بڑی کمی ہوئی تھی اور زیادہ افراط زر کی وجہ سے ترکی کی معیشت بری طرح دباؤ کا شکار رہی ہے۔
اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کئی سال سے جاری کشیدگی کے خاتمے کے بعد دو طرفہ تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔
یہ معاہدہ مالی امداد کے لیے اس سال خلیج کے عرب ممالک سے رجوع کرنے والے اردوغان کے لیے بھی بڑی کامیابی ہے۔
ترکی کے وزیر خزانہ نورالدین نباتی سعودی عرب، قطر ارو متحدہ عرب امارات سے مالی تعاون کے حصول کی کوششوں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
اس معاہدے پر مذاکرات سے قبل اردوغان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ترکی کے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر اضافے کے بعد 11 نومبر کے ہفتے میں دیکھی گئی 2022 کی 117.5 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح سے بڑھ کر جلد ہی 130 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔