امریکی فوج کے حاضر سروس اور سابق فوجیوں نے بدھ کو افغانستان سے امریکہ کے جلدی بازی میں کیے گئے انخلا کے بارے میں براہ راست گواہی دی ہے جس میں انہوں نے عملی طور پر ہونے والے قتل و غارت اور موت کی دلخراش تفصیل بیان کی اور کانگریس سے افغانستان میں رہ جانے والے اتحادیوں کی مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سابق میرین سارجنٹ ٹائلر ورگس اینڈریوز نے کانگریس کے سامنے روتے ہوئے دھوئیں کی گہرے بادل کے نیچے انسانی گوشت کی بدبو کے بارے میں گواہی دی۔ ایسا اس وقت ہوا جب دو خودکش بمباروں نے افغان شہریوں کے اجتماعات پر حملہ کیا جس کے بعد کابل کے ہوائی اڈے کے ارد گرد بچوں، عورتوں اور مردوں کی چیخوں کی آواز پھیل گئی۔
ورگس اینڈریوز کے بقول: ’میری رائے میں انخلا تباہ کن تھا اور احتساب کا ایسا فقدان تھا جس کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔‘
بم حملوں کے نتیجے میں بازو سے محروم ہونے والے اینڈریوز اب مصنوعی بازو لگا رکھا ہے اور ان جسم پر گہرے زخموں نے نشانات ہیں۔
ایبے گیٹ میں فرائض انجام دینے والے فوجی طبی کارکن ایڈن گنڈرسن کا کہنا تھا کہ ’میں ان تمام لوگوں کے چہرے دیکھ رہا ہوں جنہیں ہم بچا نہیں سکے، وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ہمارے افغان اتحادی محفوظ جگہ پر بھاگ گئے یا وہ طالبان کے ہاتھوں مارے گئے۔‘
امریکی ایوان نمائندگان میں رپبلکن ارکان کی جانب سے طویل عرصے سے وعدہ شدہ تحقیقات میں ابتدائی سماعت نے اگست 2021 میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے کھلے زخموں کو نمایاں کر دیا ہے۔
گواہوں نے یاد کیا کہ کس طرح انہوں نے ماؤں کو مردہ بچے اٹھاتے اور طالبان کو لوگوں کو گولی مارتے اور بے دردی سے قتل کرتے ہوئے دیکھا۔
یہ سماعت بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے افغانستان سے انخلا کی جانچ کرنے کے لیے رپبلکنز کی زیرقیادت پہلی سماعت تھی۔ مزید سماعتوں کی توقع بھی جا رہی ہے۔
طالبان فورسز نے افغان دارالحکومت کابل پر اس سے کہیں زیادہ تیزی سے قبضہ کر لیا جس کا امریکی انٹیلی جنس نے امریکی افواج کے انخلا کے بعد اندازہ لگایا تھا۔
کابل پر قبضے نے مغرب کے انخلا کو ایک راستے میں بدل دیا اورکابل کا ہوائی اڈہ اس کام کے لیے عارضی طور پر تعینات امریکی افواج کے زیر نگرانی بے چینی کے ساتھ فضائی انخلا کا مرکز بن گیا۔
گواہوں کی اکثریت نے کانگریس کے سامنے استدلال کیا کہ کابل کا سقوط، امریکہ کی ناکامی تھی جس کا الزام جارج ڈبلیو بش سے لے کر جو بائیڈن تک ہر صدارتی انتظامیہ پر عائد ہوتا ہے۔
یہ گواہی انخلا کے فیصلے پر نہیں بلکہ اس بات پر مرکوز تھی کہ گواہوں نے امریکی شہریوں اور افغان اتحادیوں کو امریکہ کی معمولی منصوبہ بندی اور ناکافی امریکی معاونت کے ساتھ بچانے کی مایوس کن کوشش کے طور پر پیش کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل سکاٹ من نے ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ کئی نسلوں سے اپنے اتحادیوں کو بار بار ترک کرنے کی وجہ سے بری شہرت حاصل کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مصیبت میں ہیں اور انہیں مدد نہیں مل رہی۔ جیسے کہ ویت نام میں مونٹاگنارڈز اور شام میں کرد۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے سابق فوجی کچھ اور بھی جانتے ہیں جس پر کمیٹی غور کرے تو اچھا ہے: ہو سکتا ہے کہ ہم نے افغانستان کا معاملہ نمٹا دیا ہو لیکن ہمارا کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔‘
ورگاس اینڈریوز نے کہا کہ انخلا کے آپریشن میں مدد کرنے والے میرینز اور دیگر افراد کو ایسے افراد کی تفصیل دی گئی تھی جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ کابل کے ہوائی اڈے پر خود کش حملہ ہونے سے پہلے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور دوسروں نے دو افراد کو تفصیل سے مماثل اور مشکوک برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا اور آخر کار اپنے اپنے نشانے پر لے لیا لیکن اس بارے میں کبھی جواب نہیں ملا کہ آیا کارروائی کرنی ہے یا نہیں۔
محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل روب لوڈوِک نے بدھ کو کہا کہ پینٹاگون کے خودکش حملے کے پہلے جائزے میں نہ تو ممکنہ حملہ آور کی کوئی پیشگی شناخت سامنے آئی اور نہ ہی امریکی فوج کی طرف سے طاقت کے استعمال کو کنٹرول کرنے والے’کارروائی کے موجودہ اصولوں میں توسیع‘ کی کوئی درخواست۔
ایوان نمائندگان کے رکن میک کال نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے انخلا کے معاملے سے نمٹنے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ وفاقی حکومت کی ہر سطح پر انتظامی ناکامی اور بائیڈن انتظامیہ کی قیادت کی حیران کن ناکامی تھی۔
ایک حل جس پر بدھ کو بحث کی گئی وہ تقریباً ان 76 ہزار افغانوں کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار کرے گا جنہوں نے 2001 سے امریکی فوجیوں کے ساتھ بطور مترجم، ترجمان اور شراکت دار کام کیا۔
حکومت نے ’آپریشن الائز ویلکم‘ کے تحت افغان شہریوں عارضی حیثیت دی۔ مذکورہ آپریشن ملک میں دہائیوں میں سب سے بڑی آبادکاری کی ایک کوشش ہے جس میں وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں ان کی خدمات کے عوض امریکہ کیں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔