کراچی کل بھی روشینوں کا شہر تھا اور آج بھی سیاسی، سماجی اور تہذیبی حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تقسیم سے پہلے اس شہر کی تعمیر میں جہاں انگریزوں، پارسیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کا حصہ رہا، وہیں یہودیوں نے بھی اس شہر کو تنوع بخشا۔
کراچی کے یہودیوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں بھی کراچی کی آبادی کا ایک چھوٹا حصہ یہودی خاندانوں پر مشتمل تھا۔ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اپنی الگ پہچان برقرار رکھی۔ یہ لوگ قیام پاکستان سے قبل بڑے شہروں کراچی، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں آ بسے تھے۔ کراچی کے یہودی خاندان زیادہ تر گوا کے علاقے کوچین، ایران، افغانستان اور عراق سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ، ہنرمند اور مستحکم معاشی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا زیادہ تر کاروبار، سرکاری عہدوں اور تعلیم کے شعبے سے منسلک رہے۔
انگریز سرکار نے سندھ کی پہلی مردم شماری1881 میں کرائی۔ اس مردم شماری کے مطابق سندھ میں 153 یہودی آباد تھے۔ دوسری مردم شماری تک ان کی تعداد دگنی ہوچکی تھی۔ سندھ گزٹ 1907 میں ایڈورڈ ہملٹن ایتکان لکھتے ہیں کہ 1901 کی مردم شماری کے مطابق 482 یہودی آباد تھے۔ تقسیم کے وقت یہ تعداد پورے پاکستان میں تو دو ہزار سے اوپر تک جا پہنچی، لیکن ان کی سب سے بڑی تعداد ہمارے شہر کراچی میں تھی اور یہ تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار یہودیوں تک تھی۔
کل ہی نہیں بلکہ آج بھی کراچی کے شہریوں کی ایک قلیل تعداد یہودی خاندانوں پر مشتمل ہے۔ نادرہ کے ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں831 یہودی آباد ہیں، جن میں سے 438 مرد اور 393 عورتیں ہیں۔ سندھ میں یہ تعداد 180 مرد اور 117 عورتوں پر مشتمل ہے جبکہ 93 یہودی مرد اور 52 یہودی خواتین کراچی کے باسی ہیں۔
آج انہیں شناخت کا مسئلہ ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ عرب اسرائیل جنگوں اور معاشرے کے عدم برداشت کی وجہ سے اس برادری نے اپنی شناخت چھپا لی ہے۔ اب یہ گنے چنے لوگ پارسی، عیسائی اور بہائی کی مذہبی پہچان رکھتے ہیں۔
گل حسن کلمتی صاحب کراچی کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے پرانی بات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کراچی کے یہودیوں کی تلاش میں نکلے تو کسی نے بتایا کہ صدر میں واقع پہلوان ایرانی ہوٹل میں یہودی آ کر بیٹھتے ہیں۔ وہاں پہنچے، کچھ لوگوں سے بات بھی کی، لیکن ہر ایک نے ان کی بات کو ٹال دیا۔
اسی رویے کا سامنا انہیں بہائی ہال میں ہوا۔ وہاں انہیں کچھ لوگ ملے جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ لوگ یہودی پس منظر کے حامل ہیں لیکن جب بات کی تو انھوں نے بات کرنے سےانکار کر دیا۔ کلمتی صاحب سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بہائی مذہب کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید اسی لیے اب ان کی تدفین یہودیوں کے قبرستان میں ہونے کے بجائے بہائیوں کے قبرستان ’گلستان جاوید‘ میں ہو رہی ہے۔
یہودی برادری کے ختم ہوتے وجود اور ان سے جڑی پراسراریت کی وجہ سے میری طرح بہت سے لوگوں کو دلچسپی ہو گی کہ شہر کراچی میں یہ لوگ پہلے کہاں بستے تھے اور کیسے رہتے تھے؟
کیا اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے والد کراچی میں رہتے تھے؟
کراچی میں ابھی بھی کئی مقامات موجود ہیں، جو کراچی کے یہودیوں کا پتہ دیتے ہیں۔
اس موضوع پر ہماری تحقیق کا آغاز کراچی کے اندرون شہر کے علاقے رنچھوڑ لائن میں سلاوٹ برادری کے آخری ہنر مند سے ملنے کے بعد ہوا۔ ہنر مند سے بات کرتے کرتے ایک اور داستان چھڑ گئی یعنی ’پرانے کراچی کے یہودیوں کی کہانیاں۔‘
کراچی کے صحافی فرید ماجد ساٹھی رنچھوڑ لائن کے ہی رہائشی ہیں۔ ان کے 82 سالہ والد باغ علی بتانے لگے کہ 1948 تک ان کے پڑوسی موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کا خاندان تھا۔
وہ کہنے لگے کہ ’یہ جو پیچھے آجا موجیا سٹریٹ‘ ہے وہاں ’شوکت منزل‘ میں یہ لوگ کرائے پر رہتے تھے۔ میں ان کا پڑوسی تھا۔ اس گلی میں اور آگے کی طرف جو مسجد ہے، وہیں سارے یہودی لوگوں کے گھر تھے۔ ان کے مطابق، موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے والد بینزوئن نیتن یاہو کے ای ایس سی (موجودہ کے الیکٹرک) کے پاور ہاؤس میں ورکشاپ انجینیئر تھے اور میں وہاں ان کے ساتھ فور مین کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ سائیکل پر اور ہم پیدل دفترجاتے تھے۔ ان کے دو لڑکے، بیوی اور ایک لڑکی بھی تھی۔ ان کی والدہ کی قبر یہودی قبرستان میں ہے۔ جب پاکستان بنا تب وہ چلے گئے۔ کسی کو بتائے بغیر رات ہی رات میں چلے گئے۔ ہمارے ان سے اچھے تعلقات تھے۔ ہم ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ ایسے نکل گئے جیسے پتہ ہی نہیں پڑا۔‘
یہی بات کے الیکٹرک کے لیبر یونین کے ایک سابق آفسر نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی کہ ہاں ایک یہودی ورکشاپ انجینئیر تھے اور رنچھوڑ لائن سے سائیکل پر آتے تھے۔
لیکن جب ہم نے کے الیکٹرک کا موقف معلوم کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی۔ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ’بینزوئن نتن یاہو نام کے کوئی صاحب ان کے ہاں ملازم نہیں رہے۔‘
البتہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ نتن یاہو کے والد کا تعلق پولینڈ سے تھا اور وہ کبھی ہندوستان نہیں آئے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ بینزوئن نتن یاہو نام کے کوئی اور صاحب وہاں رہتے ہوں جو بعد میں ملک چھوڑ کر چلے گئے ہوں۔
لیکن اس کے باوجود ان گلیوں کے رہائشیوں کے ذہنوں میں یہ بات اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ باغ علی صاحب کی بات کی تائید پچھلی گلی کے رہائشی ناصر خان نے بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’نتن یاہو کے خاندان کے متعلق ہم نے اپنی والدہ سے سنا کہ وہ لوگ شوکت منزل میں رہتے تھے۔ شاید 1950 سے پہلے کی بات ہوگی۔ یہ لوگ یہاں ہی بستے تھے۔ میں نے ان کی مسجد سے لوگ نکلتے دیکھے ہیں۔ وہ ہماری طرح کے لوگ تھے۔ اب تو وہ ختم ہوگئی۔ وہاں مارکیٹ ہے۔‘
اسی سے ملتی جلتی بات اقبال عبدالرحمان نے اپنی کتاب ’میرے زمانے کی کراچی‘ میں بھی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’جاماؤجی اسٹریٹ پر قائم شوکت منزل، ایک تاریخی عمارت ہے جس کا آدھا حصہ مسمار ہوچکا، (اب یہ عمارت مکمل طور پر اپنا وجود کھو چکی ہے) اس عمارت میں یہودی آباد تھے۔ شوکت منزل ہی نہیں رنچھوڑ لائن اور رامسوامی کی کئی عمارتیں ان کے وہاں قیام کی شاہد ہیں۔ 1967 کی اس عمارت میں رہنے والے ایک یہودی خاندان نے اسرائیل میں مستقل قیام کی خاطر ہجرت کی، جو شاید کراچی کا پہلا یہودی خاندان تھا جس نے ہجرت کی بنیاد رکھی، اس خاندان کی رشتہ داری اسرائیل کے حکمران خاندان سے تھی۔‘
رنگارنگ ماحول، جو اب ماضی کا حصہ بن گیا
انیتا غلام علی صاحبہ کراچی کی پرانی باسی تھیں۔ وہ اپنی ایک تحریر ’یادوں کے دریچے سے‘ جو ادبی رسالے ’آج: کراچی کی کہانی 1‘ میں انگریزی زبان سے ترجمہ کی گئی، میں پرانے کراچی کا نقشہ کچھ اس طرح کھنچتی ہیں: ’کراچی، جس کے سینے میں دل تھا اور جس کے بازو کھلے ہوئے تھے۔‘ مزید لکھتی ہیں کہ ’ہم ونزر پیلس میں رہتے تھے۔ جو سینٹ لارنس کانونٹ کے قریب تھا۔ اس کے اردگرد کا ماحول 1940 اور 1950 کی دہائی کے کراچی کے اصل کردار اور خدوخال کا عکاس تھا۔ سامنے میدان تھا، جہاں گپتا خاندان رہتا تھا، ہمارے مکان کے ایک طرف کیتھولک سر چارلز لوبو اور دوسری طرف خلیج فارس کا مسلم خاندان، وہاں سے صرف دوسو گز کے فاصلے پر دو یہودی خاندان رہتے تھے اور سکول کے آس پاس کیتھولک اور پارسی آباد تھے۔‘
کراچی کے یہودیوں کے بارے میں وہ آگے لکھتی ہیں کہ ’میرے والد کے یہودی دوست مراٹھی اور انگریزی بولتے تھے۔ رام سوامی اور ڈی جے کالج کے اردگرد رہتے تھے۔ وہ بڑے خوش باش اور شور کرنے والے لوگ تھے۔ چھٹی والے دن جمع ہوتے۔ مذہبی تہواروں پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے۔ یہی نہیں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 1980 کی دہائی میں جب میں اپنے چچا کے ڈائننگ روم میں داخل ہوئی تو میں نے وہاں انہیں اسرائیل سے آئے ہوئے مہمان کی تواضع کرتے دیکھا۔ کراچی کا یہ یہودی باشندہ اس نرس کا بھتیجا تھا، جس نے جب ابا کالج میں پڑھتے تھے، سول ہسپتال میں ان کی دیکھ بھال کی تھی۔ مزید یہ کہ میرے والد سہون میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے ٹرسٹی تھے اور کراچی میں یہودیوں کے سناگوگ اور ہندو ٹیمپل کمیٹی کے بھی۔‘
شیر شاہ سید، جہنوں نے یہودیوں کے سناگوگ ’میگن شلوم‘ پر ایک افسانہ لکھا ہے، بتاتے ہیں کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم این جے وی سکول سے حاصل کی۔ انہیں آج تک اپنے ریاضی کے استاد مسٹر بینجمن یاد ہیں۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد وہ ایک دم غائب ہو گئے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جب وہ میگن شلوم پر افسانے کے لیے مواد جمع کر رہے تھے، تو انہیں ممتاز گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر صادقہ جعفری نے بتایا کہ 60 کی دہائی میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ان کی ہم جماعت دو یہودی لڑکیاں بھی تھیں۔ یہی بات ڈاکٹر آصف باوانی بتاتے ہیں کہ 50 کی دہائی میں ان کی رہائش شو مارکیٹ کی طرف تھی۔ ان کی بڑی بہن سلائی کڑھائی سیکھنے سینٹر جاتی تھیں اور ان کے ساتھ پڑوس میں رہائش پزیر یہودی دوست بھی ساتھ جاتی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے لباس ہم سے مختلف ہوتے تھے۔
کراچی کے یہ پرانے باسی اولڈ ٹاؤن یعنی لی مارکیٹ، جوڑیا بازار، رنچھوڑ لائن، گارڈن اور رام سوامی کے علاقے میں بستے تھے۔ مجھے ان علاقوں کی کئی پرانی بوسیدہ اور مخدوش عمارتوں پر یہودیوں کا خاص نشان سٹار آف ڈیوڈ ملے۔
ان عمارتوں میں سب سے ممتاز عمارت میری ویدر ٹاور ہے، جس کا مقصد کراچی کے ساحل پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں اور آنے والے افراد کو کراچی کے داخلی دروازے کا پتہ دینا تھا۔ یہ آج بھی کراچی کا مصروف ترین چوراہا ہے اور ہر بس والا ٹاور، ٹاور کی صدا لگائے بغیر یہاں سے نہیں گزرتا۔
سلاوٹ برادری کے ہنر مندوں نے کمال ہنر مندی سے اس پر سٹار آف ڈیوڈ تراشا ہے، جو کراچی کے یہودی باسیوں کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح جوبلی مارکیٹ کے نزدیک سرخ رنگ کی عمارت پر عمارت کا نام، سوہنی بلڈنگ 1941 لکھا ہے اور ساتھ ہی سٹار آف ڈیوڈ بنا ہوا ہے۔ یہاں بھی لوگ اس عمارت کی اہمیت سے واقف نہیں، تصویر بنانے پر لوگ ہمیں کے ڈی اے کے اہلکار سمجھے۔ ہمارے بتانے پر ان کا کہنا تھا: ’اچھا کبھی یہ لوگ بستے ہوں گے، ابھی تو ہم ہیں۔‘
کراچی کی یہودی عبادت گاہیں
کراچی کی یہودی آبادی چھوٹی ہونے کے باجود اپنا سماجی کردار خوب ادا کرتی رہی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کراچی میں دو سناگوگ تھے، لیکن ہمیں ملنے والے شواہد اور حوالے ایک ہی سناگوگ کا پتہ دیتے ہیں، یعنی میگن شیلوم سناگوگ جو عرف عام میں ’یہودی مسجد‘ کہلاتا تھا۔
اس کا کُل رقبہ 1109 مربع فٹ تھا جو موجودہ جمیلہ سٹریٹ، نشتر روڈ پر واقع تھا۔ اس کی تعمیر کا بیڑا، برادری کے سرکردہ رہنما اور کاروباری شخصیت سولومون ڈیوڈ اومردیکر نے 1890 میں اٹھایا۔ 1893 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ان کے نام سے رام سوامی میں کبھی سڑک بھی منسوب تھی۔ اب سولومن ڈیوڈ سڑک کا نام تبدیل کر کے سلیمان داؤد روڈ کر دیا گیا ہے۔
میگن شیلوم سائنا گوگ کی دو منزلہ عمارت زمانے کے دستور کے مطابق زرد پتھر سے تیار کی گئی تھی۔ جب برادری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا تو اس کو سولومن ڈیوڈ کے بیٹوں نے 1912 میں مزید توسیع دی۔ برادری متحرک اور منظم تھی کیونکہ 1903 میں یہودی برادری نے ینگ مین جیوش ایسوسی ایشن بھی بنالی تھی۔
تقسیم کے بعد کراچی کے یہودی گئے کہاں؟
اسرائیل بننے کے بعد یہودی برادری نے اسرائیل جانا بہتر سمجھا اور کئی خاندانوں نے پاکستان چھوڑ دیا۔ سست روی سے جاری اس سلسلے میں عرب اسرائیل جنگوں میں تیزی آئی اور بڑے پیمانے پر یہودی برادری نے اپنے گھربار چھوڑ دیے اور نئے دیس میں جا بسے۔ 1968 میں کراچی میں یہودیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے 250 تک جا پہنچی۔
اس بتدریج انخلا کی وجہ سے اس سناگوگ کی ویرانی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔ برادری کی دیگر تنظیموں کی کارکردگی بھی ماند پڑ گئی۔ مختصر ہوتی اس برادری کی آخری کسٹوڈین ریچل جوزف تھیں۔ انھوں نے پاکستان میں قیام تک رام سوامی میں رہائش اختیار رکھی اور بحیثیت استاد سولجر بازار کے نزدیک جوفیل ہرسٹھ سکول میں پڑھاتی رہیں۔
1988 کے لگ بھگ سناگوگ ٹوٹا اور اس کی جگہ مدیحہ سکوائر کا پورا بازار سج گیا، گھر تعمیر ہوئے اور ان میں لوگ بس بھی گئے، لیکن آج تک سناگوگ دوبارہ نہ بن سکا اور نہ ہی پہلی منزل ریچل جوزف کے پاس رہی۔ اب اس منزل پربھی گھر بنا کر فروخت کر دیے گئے ہیں۔
مدیحہ سکوائر کے ایک دکان دار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ ’وہ اپنے ابا کے ساتھ دکان پر بیٹھتے تھے۔ انہیں تھوڑا تھوڑا یاد ہے۔ ریچل ساڑی پہنتی تھیں اوردکان داروں سے کرایہ لینے آتی تھیں اور ابھی بھی پگڑی کی ان دکانوں کی ملکیت یہودی ٹرسٹ کے نام پر ہے۔‘
کراچی کو الگ پہچان دیتے یہودی قبرستان
کراچی میں دو سناگوگوں کے شواہد تو نہ مل سکے لیکن میوہ شاہ میں ان کے دو یہودی قبرستان ضرور ہیں۔ ایک کچھی میمن قبرستان کے ساتھ چھوٹا اور مخدوش ہوتا ٹکڑا اور ایک داؤدی بوہرہ قبرستان نور باغ کے ساتھ نسبتاً بڑا یہودی قبرستان جس کے دروازے کے ساتھ سیمنٹ سے سٹار آف ڈیوڈ بنا ہوا ہے اورساتھ ہی ’بغیر اجازت فالتو آدمی کا اندر آنا سخت منع ہے‘ تحریر ہے۔
ہم اختر بلوچ صاحب کے ساتھ قبرستان کے احاطے میں داخل ہوئے، پہلے سے طے شدہ نکات کے مطابق پندرہ، بیس منٹ میں ہمیں معلومات اور تصاویر لے کر باہر آ جانا تھا۔ قبرستان کے رکھوالے چاند سیلمان نے اپنے بلوچی لہجے میں بتایا کہ ’ہم پشت در پشت سے اس قبرستان کے رکھوالے ہیں۔ ہمارے بڑے ہی ان قبروں کے گورکن اور محافظ تھے۔ میرا دادا، میرا باپ، میری ماں اور اب میں اس قبرستان کو دیکھ رہا ہوں۔ آگے میرے بچے دیکھیں گے۔‘
اختر بلوچ صاحب نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ان کے اور ہمارے تدفین کے انداز ملتے جلتے ہیں۔ قبروں کے کتبوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سمت قبلہ اول بیت المقدس کی طرف ہے۔ ان قبروں کے رخ دیکھ لیں مغرب کی طرف ہیں۔ سب قبروں پر سٹار آف ڈیوڈ کے نیچے عبرانی، انگریزی اور گجراتی زبان میں مدفون کے بارے میں تعارف موجود ہے۔‘
قبرستان کے کتبوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی قبریں پیلے اور پھر سفید سنگ مرمر سے بنائی گئیں اور آخری آخری کچھ قبریں سیمنٹ کی بھی نظر آئیں۔ زبان کے لحاظ سے گجراتی سب سے آخر میں کتبوں پر لکھی گئی۔ ابتدائی قبروں پر صرف عبرانی اور انگریزی زبان ملتی ہیں۔ کتبے پر سنہ پیدائش اور موت کی تاریخ اور ان کے پیشے یا یہودی برادری میں ان کا مقام بھی لکھا گیا ہے۔
یہ قبریں ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ گئے زمانے کا کراچی کتنی برادریوں کے مختلف رنگوں کو قوسِ قزح کی طرح اپنے اندر سموئے ہوئے تھا، وہ رنگ جنہیں وقت کی بارشوں نے مدھم کرتے کرتے بالآخر مٹا ڈالا۔