کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ایک طرف جہاں پوری وادی میں کرفیو نافذ ہے اور لوگ اپنے پیاروں کی خیر خیریت جاننے کے لیے پریشان ہیں، وہیں بھارت میں سوشل میڈیا پر بعض نوجوانوں نے یہ ’جشن‘ منانا شروع کردیا ہے کہ وہ اب کشمیری دلہن حاصل کرسکیں گے۔
ایسی وائرل پوسٹس ویڈیو ایپ ٹِک ٹاک پر زیادہ نظر آرہی ہیں جو خاص طور پر ایسے مرد شیئر کر رہے ہیں جو ہندوتوا قوم پرستی پر مبنی مواد بھی شیئر کرتے ہیں۔ یہ ایک پریشان کن ٹرینڈ ہے جو کشمیری خواتین کو کسی ایسی چیز کی طرح پیش کرتا ہے، جنہیں ’حاصل‘ کیا جا سکتا ہے۔
انکت جاتو نامی ایک شہری کے ٹِک ٹاک اکاؤنٹ پر شیئر کی گئی ایسی ہی ایک ویڈیو میں تین مرد دہلی کی ایک دکان کے باہر کھڑے ہیں۔ موبائل کیمرے کو دیکھ کر ان کی باچھیں مکمل کھلی ہوئی ہیں۔ ایک آدمی سوال کرتا ہے کہ آرٹیکل 370 ہٹانے کا فائدہ کیا ہوگا؟ جس پر انکت جاتو کہتا ہے: ’ارے کشمیر میں ترنگا لہرائے گا۔‘ پھر وہ اپنے دوسرے دوست کی طرف مڑتا ہے جو اپنی چھاتی ٹھونک کر کہتا ہے: ’دوسرا یہ کہ کشمیر کی لُگائی (دلہن) ملے گی ہمیں‘۔ ان کا تیسرا دوست اعلان کرتا ہے کہ کشمیر کو اب ہم کاشی کہا کریں گے۔ پھر وہ تینوں مل کے وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہف پوسٹ انڈیا‘ کے مطابق، جاتو کے ٹک ٹاک پر 12 ہزار فالورز ہیں اور یہ ویڈیو کشمیر میں آرٹیکل 370 کے نافذ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ہی شیئر کی گئی۔
جاتو کی ایک اور ویڈیو میں ایک لڑکا بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا ہے: ’میں تو چلا کشمیر، مجھے دہلی میں لڑکی نہیں مل رہی۔‘
اسی طرح مظفر نگر سے بھارتی لوک سبھا کے رکن وکرم سنگھ سئینی کی بھی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اب بھارتی مرد ’گوری کشمیری لڑکیوں‘ سے شادی کر سکتے ہیں۔
Gori Kashmiri ladkiyaan( the fair kashmiri girls) . So the entire debate was about getting a fair kashmiri bride for the UP men. In a government propagating beti bachoa, the women has been reduced to a commodity . How low is low . https://t.co/GImguJozi4
— Toufiq Rashid (@ToufiqRashid) August 7, 2019
اس ساری صورت حال میں اہم ترین بات یہ ہے کہ بھارت کے لوگوں پر پہلے بھی کوئی ایسی پابندی نہیں تھی کہ وہ کشمیری خواتین سے شادی نہ کر سکیں، ہاں ایک پرانا قانون یہ ضرور تھا کہ کشمیری عورت اگر کسی بھارتی شہری سے شادی کرے گی تو اس کی جائیداد بچوں کو ترکے میں نہیں مل سکے گی۔
’ہف پوسٹ انڈیا‘ کے مطابق بھارت میں پہلے بھی اس طرح کی ’مردانہ وطن پرستی‘ کی کئی مثالیں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ جب بھی کسی خاتون سیاست دان نے بھارتیہ جنتا پارٹی یا اس کے کسی رہنما کے خلاف بات کی، اُسی وقت اسے ریپ کی دھمکیاں دی جانے لگتی ہیں، کبھی ان کی جعلی پورن ویڈیوز بنا دی جاتی ہیں اور کبھی انہیں فون پر غیر اخلاقی پیغامات ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔
اصل میں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی تب ہوتی ہے جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئیر وزیر بھی اپنے اجلاسوں میں انہیں بلاتے ہیں اور ان جیسوں کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔
کشمیری دلہن لانے والی اکثر ویڈیوز میں دیکھا جائے تو زیادہ تر کا اختتام بھارت ماتا کی جے یا وندے ماترم پر ہوتا ہے، یہ نعرے بالخصوص بی جے پی کا ہی طرہ امتیاز ہیں۔ عورتوں کو بطور ایک ’چیز‘ یا ملکیت تصور کرنا اور جنگوں میں انہیں ہتھیا لینا پرانے زمانے ہی سے اس قسم کی جماعتوں کا ’قابل فخر‘ کارنامہ رہا ہے۔
اسی طرح کئی دیگر بھارتی نوجوانوں کی سوشل میڈیا پوسٹس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ’کشمیری دلہنیں‘ ان کی خواہش اس وجہ سے ہرگز نہیں کہ وہ بہت ہنر مند ہیں یا با سلیقہ ہیں بلکہ کشمیری لڑکیوں کو وہ عین اسی طرح بطور جنسی آبجیکٹ لے رہے ہیں جیسے ماضی میں کوئی بھی فاتح قوم اپنی مفتوحہ نسل سے، ان کی لڑکیوں کو غلام بنا کر بدلے لیا کرتی تھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس مخصوص ’ہندو توا‘ ذہنیت کا تقابل دنیا بھر کے مردانہ بالادستی والے معاشروں سے کیا جا سکتا ہے جہاں مرد کے گرد دنیا گھومتی ہے اور اس دنیا میں عورت کی حیثیت محض ایک جنسی کھلونے یا سر ہلانے والے غلام سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتی۔