بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ایک طرف تو پاکستان نے سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے، امریکہ دونوں ممالک کو براہ راست مذاکرات کا کہہ رہا ہے تو دوسری جانب بھارت سے مزدوری کی غرض سے کشمیر آنے والے سکیورٹی لاک ڈاؤن کے باعث واپس جانے پر مجبور ہیں۔
کشمیر میں لاک ڈاؤن کے باعث جانے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ سخت سکیورٹی اقدامات اور سفری مسائل کے باعث ان کے آجر ان کو مزدوری نہیں دے رہے جبکہ بھارتی فوج کی جانب سے ان کو اپنی نوکری چھوڑ کر اپنے علاقے واپس جانے کا کہا جا رہا ہے۔
بھارتی حکام کی جانب سے مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا اس کے علاوہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کے جائیداد خریدنے پر عائد پابندی اور الگ آئینی حیثیت کو بھی ختم کر کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
کشمیر کا علاقہ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے درمیان متنازع ہے۔ دونوں ملک اس پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔ جوہری طاقت کے حامل دونوں ممالک کشمیر کے معاملے پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد گذشتہ روز پاکستان نے دہلی کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسلے پر ثالثی کی پیشکش کی تھی تاہم بعد میں بعض بھارتی میڈیا پر یہ خبر سامنے آئی تھی کہ بھارت تو پہلے ہی امریکہ کو اس حوالے سے دو مرتبہ آگاہ کر چکا ہے۔
Contrary to press reporting, the Indian government did not consult or inform the US Government before moving to revoke Jammu and Kashmir’s special constitutional status. - AGW
— State_SCA (@State_SCA) August 7, 2019
تاہم گذتشہ روز امریکہ نے ان بھارتی عہدیداروں کے بیانات اور میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے۔
امریکہ کی قائم مقام نائب وزیرخارجہ برائے وسطی و جنوبی ایشیا ایلس ویلز جو اس وقت پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد میں موجود ہیں، نے ایک دو ٹوک بیان میں اس تاثر کی نفی کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو برائے وسطی و جنوبی ایشیا کے ہینڈل سے جاری ٹویٹ میں ویلز کا کہنا تھا: ’میڈیا رپورٹس کے برعکس، بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے پہلے امریکی حکومت کو آگاہ کیا اور نہ ہی کوئی مشاورت کی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسٔلے پر تازہ کشیدگی کے تناظر میں واشنگٹن نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان براہ راست مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں دونوں ممالک پر کشیدگی کم کرنے اور بڑھتے ہوئے تناؤ کے ماحول میں تحمل اور پُرامن رہنے کی تلقین بھی کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ہم پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر معاملات حل کرنے کے لیے براہ راست بات چیت کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘
ادھرخبر رساں ادارے کے اے پی کے مطابق بدھ کو جموں کے ریلوے سٹیشن پر اتر پردیش، بہار اور جھاڑکھنڈ جانے والے مزدوروں کا رش تھا۔ انھوں نے اپنا سامان اٹھا رکھا تھا اور وہ ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔
ایک مزدور جگدیش ماتھر کا کہنا تھا کہ لوگ ہائی وے پر پیدل چل کر، آرمی ٹرکوں یا بسوں میں سوار ہو کر سری نگر سے جموں پہنچ سکے ہیں۔ دونوں شہروں کے درمیان 260 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ماتھر کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کئی دن سے کچھ نہیں کھایا۔ ہمارے پاس بہار کا ٹکٹ خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں ہماری مدد کرنی چاہیے۔‘
اسی بارے میں مزید پڑھیے
بھارت کی زور آزمائی کا ردعمل پلوامہ جیسے واقعات ہو سکتے ہیں: وزیراعظم
کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم، پاکستان کی مذمت
کشمیر میں بڑھئی کا کام کرنے والے سرجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر سے سکیورٹی لاک ڈاؤن کی وجہ سے واپس جانے پر مجبور ہیں۔
بھارت سے ہر سال دسیوں ہزاروں لوگ مزدوری کی تلاش میں کشمیر کا رخ کرتے ہیں جن میں زیادہ تر بڑھئی، معمار اور زرعی کام کرنے والے مزدور ہوتے ہیں۔ جب بھی امن عامہ کی صورتحال متاثر ہوتی ہے تو انہیں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
کشمیر میں مسلح گروہ 1989 سے ہی بھارت سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان گروہوں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے تاہم پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔