پہلی مرتبہ میرے اہم تعلقات کا آغاز 2008 میں ہوا۔ میری یادداشت بہت کمزور ہے لیکن لگتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ اگلی صبح درج ذیل واقعات یقینی طور رونما ہوئے۔
ہم نے اس صبح قیاس کیا کہ کیا امریکہ کی عالمی معاشی سروسز لیہمن برادرز کے خاتمے سے کسی قسم کے عالمی مالیاتی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اس وقت ہم پاپ گلوکار جوڑے ’ٹنگ تھنگ‘ اور راک موسیقی کے بینڈ ’سکاؤٹنگ فار گرلز‘ کے گانے سن رہے تھے۔
اداکار بریڈ پِٹ اور اداکارہ انجیلینا جولی کی جوڑی ’برنجلینا‘ کے تعلقات کے مضبوط ہونے پر بات کرنے اور دیوانہ وار یہ سوچنے کے بعد کہ کیا ایک دن ٹوری رہنما ڈیوڈ کیمرون پر سؤر کے چہرے کے ساتھ جنسی عمل کا الزام لگایا جائے گا، ہم نے بوسہ لیا اور میں وہاں سے چلا گیا۔ اوہ! اور یہ بات مجھے واقعی اچھی طرح یاد ہے۔ ہم اس دن فیس بک پر دوست بھی بن گئے۔
یہ ایک حسین لمحہ تھا، ایک ایسے وقت میں جب فیس بک کو قانونی طور پر پیارا قرار دیا جا سکتا تھا۔ اس وقت لوگ جس انداز میں سوشل میڈیا استعمال کر رہے تھے وہ پرلطف طور پر سادہ تھا۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے جس طرح محبت کرنے والے نوجوان لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ لوگ دوسرے کا نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔
ہم سب شائستہ اور پر امید تھے۔ عام طور پر باتوں کو ہلکا، آسان اور کھلا لیتے تھے۔ اس وقت ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے ملنے والے لوگ شادی کر لیتے تھے۔ یہ کام صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ بوڑھے افراد بھی کرتے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ون کی مزاحیہ ڈراما سیریز ’لاسٹ ٹینگو ان دا ہیلی فیکس‘ میں یہی کچھ دکھایا گیا ہے۔ آن لائن محبت پانے والے 70 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے بارے میں یہ ڈراما سیلی وین رائٹ نے تحریر کیا۔ اگرچہ یہ ڈراما 2012 کا ہے، اس کے باوجود آج آپ کے لیے آن لائن محبت پانا اتنا سادہ نہیں ہے جتنا اس وقت تھا۔
ممکن ہے کہ 70 سال سے زیادہ عمر کے فیس بک کے صارفین اس مشترکہ تاثر پر اکٹھے ہو جائیں گے کہ امبر ہرڈ گھریلو تشدد کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھیں، یا غیر قانونی کوڑے دان کے بارے میں خبر پر مقامی اخبار کے رائے کے اظہار والے حصے میں نسلی القابات دے رہی تھیں۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ رومانس فیس بک اور بالعموم سوشل میڈیا سے غائب ہو چکا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ پورا معاملہ کتنا ڈرامائی طور پر خراب اور غیر رومانوی ہو چکا ہے، میں حیران ہوں کہ اب بھی کہا جاتا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے لوگوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو فالو کریں گے۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ سوچتے ہوں کہ کسی کو آن لائن فالو کرنے سے انکار ناشائستہ (اور بدتمیزی کے قریب ترین) ہے لیکن میں ایمانداری سے سوچتا ہوں کہ خطرہ مول نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔ سوشل میڈیا تفریح سے تھوڑا سا کسی ایسی شے میں تبدیل ہو چکا ہے جو طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ اگرچہ اندازے واضح نہیں ہیں تاہم ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز کو طلاق کے تمام کیسز میں سات میں سے ایک سے لے کر ایک تہائی تک کے عنصر کے طور پر رپورٹ کیا گیا ہے۔
مجھے یہ اعداد و شمار دلچسپ لگتے ہیں کیوںکہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنی حقیقی زندگی میں ظاہری طور پر تسلیم کرنے سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہاں کمرے میں ہاتھی کی کہاوت صادق آتی ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ مسئلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہم اکثر اس کی موجودگی کو باوقار بنانے کے خوف میں اس پر بحث نہیں کرتے ہیں۔ ایسا تب تک نہیں ہوتا جب تک آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہیں آ جاتے جو کسی سوشل میڈیا فین کے ساتھ تعلق میں بری طرح الجھا ہوا ہو۔
میں نےماضی میں شکایات سنی ہیں کہ لوگوں کو پارٹنرز کی آرا کے لیے تختہ مشق کے طور پر استعمال کیا گیا یا وہ لوگ جو اے۔ گیم پر ہونے والی بات چیت کو اپنی آن لائن برادری کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں جب کہ عام طور پر ان کی زندگی بڑی حد تک بے رونق ہوتی ہے۔
بعض لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کے پارٹنر ان کی اور جو کچھ وہ کریں اس کی بہت زیادہ تصویریں لیتے ہیں جس میں (کھانا) بھی شامل ہے۔ وہ یہ تصویریں سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں اور خاندان کے لوگوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے پارٹنر کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کے بے تکا ہونے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان باتوں میں ڈینگیں مارنا، تسلسل کے ساتھ مثبت پہلوؤں کا اظہار یعنی ’میں نے فلاں فلاں کے ساتھ اچھا وقت گزارا‘ اس کے باوجود کہ وہ پوری طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کو خفیہ طور پر داغدار کرنا چاہتے ہیں۔
صورت حال اس کے بالکل برعکس بھی ہو سکتی ہے جس میں کوئی پارٹنر محض چھپا رہ سکتا ہے۔ وہ خاموشی کے ساتھ آپ کی انسٹاگرام سٹوریز کو پوری توجہ سے پڑھتا ہے اور کبھی ان میں سے کسی کا حصہ نہیں بنتا۔
سچی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسی ہیجانی خیالی حالت میں ہے کہ آپ دونوں کا آن لائن ایک دوسرے کو غلاموں کی طرح فالو کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے ایسی منشیات استعمال کرنا زیادہ صحت مند ہو گا جو آپ کو خیالوں کی دنیا میں لے جائیں۔
یہ حقیقی دنیا نہیں ہے۔ یہ ان بے ترتیب لوگوں کا مجموعہ ہے جو زیادہ تر آپ کے لیے اہمیت نہیں رکھتے۔ بمشکل یاد رہ جانے والے سکول کے زمانے کے دوست جن کی سیاست اب آپ کو دیوانہ بنا رہی ہے۔ وہ لوگ جن کے ساتھ آپ ایک دہائی پہلے کام کرتے تھے، جن کی آپ کو اب زیادہ پروا نہیں ہے۔ وہ لوگ جن کے بارے میں آپ سوچا کرتے تھے ان سے لیکن کبھی نہیں ملے۔ وہ لوگ جن کے ساتھ آپ ڈیٹ پر جایا کرتے تھے لیکن اب ان سے بات نہیں کرتے۔
مضبوط شخصیت کا مالک وہ شخص جس سے آپ کی فیسٹیول میں ملاقات ہوئی تھی جو اب زیادہ اپنے بسکٹ کے کاروبار کے بارے میں پوسٹیں کرتا ہے۔ بطور ایکو سسٹم یہ صورت حال حقیقی زندگی کے ساتھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتی۔
حقیقی زندگی میں تعلقات مختلف ہیں کیوں کہ آن لائن موجود لوگ اپنے بارے میں مخصوص باتیں بتاتے ہیں۔ ’حقیقی زندگی‘ کے تعلقات پیچیدہ ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ قربت پائی جاتی ہے کیوں کہ آپ کسی شخص کو مکمل طور پر جانتے ہیں۔ وہ لوگ جو ساتھ رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ایک سے زیادہ شادی نہیں کریں گے۔ وہ لوگ جن کے ساتھ رہ کر آپ ’خود آپ ہو سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے برعکس ہم میں زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ آن لائن ’خود آپ ہونے‘ کا زیادہ تر مطلب غیر حقیقی بات کو حقیقی بنا کر پیش کرنا ہے۔ لوگوں نے سوچا کہ امریکی مزاحیہ اداکار ایرک آندرے اور ماڈل ایمیلی رتاجکووسکی ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر ذاتی طور پر موجود تھے۔ مثال کے طور پر جب آندرے نے جوڑے کی مکمل طور پر عریاں تصویر، شراب کی بوتل اور (ممکنہ طور پر جنسی عمل کے بعد) کا کپڑوں کا بنڈل شیئر کرکے جوڑا ہونے کا اعلان کرتے نظر آئے۔
یہ سب بہت دلچسپ تھا حتیٰ کہ رتاجکوسکی نے حال ہی میں وضاحت کی وہ تصویر اس وقت آن لائن شیئر کی گئی جب انہوں نے آندرے کے ساتھ ملنا بند کر دیا۔ سارا منظر بدل گیا جو حیران کن نہیں ہے۔ کوئی بھی مقام جہاں جذبات کو شے میں تبدیل کر دیا جائے (خواہ وہ قدرے مالی طور پر ہو یا اس کی مثال ڈوپامن کا اخراج ہو) لامحالہ طور پر انسانی اظہار کا حقیقی ہونا متاثر ہونا شروع ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ میں مشہور شخصیت کے طور پر صرف ٹیلی ویژن میزبان لورین کیلی پر اعتماد کرتا ہوں جنہوں نے 2019 میں ایچ ایم آر سی کے ساتھ ٹیکس پر لڑائی میں سکرین پر کامیابی کے ساتھ دعویٰ کیا کہ وہ خود آپ نہیں ہیں۔ جج کے الفاظ میں انہوں نے وہ محض ’اپنی شخصیت کو پیش کر رہی تھیں۔‘ کام کے دوران ’لورین کیلی‘ کو اپنے مہمانوں کے لیے قابل قبول بننا پڑتا ہے۔ جب وہ لوگوں کو استری کرنے کے طریقوں یا آنتوں کے سرطان کی علامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں تو وہ ہلکے پھلکے انداز میں مسکراتے ہوئے بات کرتی ہیں۔
یہ ایسی رسمی بات نہیں جو کیلی کوٹس کا استعمال کیے بغیر کرتی ہیں اور اس طرح وہ بجا طور پر ان دو شخصیتوں کے درمیان خط کھینچ دیتی ہیں جو ایک ہی نام استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر ہم سب میں ایسا ہی دہرا پن پایا جاتا ہے۔ وہ ہستی جس کے ساتھ آپ محبت کرتے ہیں اس کا آن لائن وہی شخصیت ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ اس لیے کسی کو کیوں فالو کیا جائے؟
مجھے سوشل میڈیا سے نفرت نہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک کے ساتھ میرے تعلق کی مدت کسی بھی ایسے رومانوی رشتے سے زیادہ طویل ہے جس میں میں رہا۔ میں اسے بہت استعمال کرتا ہوں لیکن جان بوجھ کر غیر سنجیدہ انداز میں جس کا مطلب ہے کہ یہ اس بارے میں تقریباً کچھ بتاتا کہ میں بطور شخص حقیقت میں کون ہوں۔ میں اسے انسانوں کے لیے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں جس کے میں جسمانی اور جذباتی طور پر قریب ہوں۔ میں نے حال ہی میں ڈیٹ پر جانا چھوڑ دیا لیکن ہم قریبی دوست رہے۔ ہفتوں بعد ہم نے انسٹاگرام پر ایک دوسرے کو فالو کرنا شروع کیا۔ یہ واقعی اچھا لگا۔
© The Independent