مچھی موڑ سے سیدھے جائیں تو سامنے تھانے کی عمارت آتی تھی ۔ گارے کی بنی یہ عمارت انگریز کے عہد کی نشانی تھی۔
اس کے بھیانک پھاٹک کے سامنے آکے رانی گھوڑی بھڑکتی تھی اور پوری قوت سے تانگہ کھینچتی دائیں جانب دوڑ لگاتی تھی۔
پتلی سی سڑک پہ گڑھے گومڑے اور کڈھے ہوتے تھے۔ تانگہ چرخ چوں کرتا پل تک چلا جاتا تھا۔
پل سے کچھ پہلے ایک گڑھا تھا جس میں چمار گائے بھینسوں کے لاشے، کھال اتارنے کے بعد پھینک دیا کرتے تھے۔ ان لاشوں کو کھانے کے لیے مردار خور جانوروں کے پرے کے پرے اترتے تھے۔
رانی یہاں سے بھی کنوتیاں کس کے بگٹٹ پل کا رخ کرتی تھی اور راجباہ کے پل سے گزرنے کے بعد اس کی چال متوالی ترین ہو جاتی تھی۔
ٹھمک ٹھمک کے چلتے ہوئے وہ جیسے ہمیں آس پاس پھیلے گہرے سبز کھیتوں میں سر اٹھاتی کھیتیاں دکھانا چاہتی تھی۔
کھیتوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ تھا جس میں اکا دکا ڈھاریاں تھیں اور انسان وہاں فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں رہ رہا تھا۔
نالوں میں نہری پانی بہتا تھا اور ابھی مقامی لوگ زرعی زمین کو جنگل سے مستعار لی ہوئی جگہ ہی سمجھتے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب زرعی زمین پہ ’کالونیاں‘ بنانے کا وائرس ابھی اتنا عام نہیں ہوا تھا۔
لیکن مرض اصل میں انسان کی جینیاتی ساخت میں ہوتا ہے، بیماری تو صرف موقع دیکھتی ہے۔ اس وقت بھی پل کے بالکل قریب واقع زمین کو دیکھ دیکھ کے کچھ لوگ بہت للچاتے تھے۔
یہ 30، 40 سال پرانا قصہ ہے۔ کوٹ لکھپت کا ذخیرہ کاٹ کے ماڈل ٹاؤن کی ہاوسنگ کالونی کو قائم ہوئے غالبا سو برس ہو چکے تھے۔ سو برس کسی بھی وائرس کی انکیوبیشن کے لیے بہت وقت ہوتا ہے۔
پنجاب کی زرخیز ترین زمین پہ ہاوسنگ کالونیوں کا عذاب، اس کے نوآبادیاتی آقاؤں کے دور ہی میں اترنا شروع ہو گیا تھا۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس علاقے میں جو اسی کی دہائی میں کھیتوں کی جگہ جو پہلی آبادی بنی، اس کا نام ’نئی آبادی‘ ہی تھا۔ تو صاحبو! ناموں کا یوں رکھا جانا محض اتفاق نہیں ہوتا۔
مرض بڑھا اور ترقی کے نام پہ بے ہنگم شہر بستے گئے، ایک عجیب سی بھوک نے انسانوں کو گھیر لیا۔
زمین داروں نے اپنی زرخیز زمینوں کی قیمت، ان کی لوکیشن کے حساب سےمتعین کرنا شروع کر دی اور خریداروں نے اپنے محلوں گلیوں کو چھوڑ کے ’فارم ہاوسوں‘ کا رخ کیا۔
ہم ایک مابعد نوآبادیاتی دنیا میں رہ رہے تھے جہاں بچے بچے کو یہ بات ازبر تھی کہ ہمارے علاقے میں گزرے بادشاہ اور نواب ،عیاش اور تماش بین تھے اور انگریز سے پہلے یہاں خاک لوٹا کرتی تھی اور سوائے اپنے محل اور مقبرے بنانے کے ان لوگوں نے کچھ نہ کیا۔
اب کیا تھا انگریز کا آباد کاری کا منصوبہ ہی سب سے اچھا منصوبہ تھا اور اس پہ سوال اٹھانے والے کو جاہل مطلق گردانا جاتا رہا۔
چنانچہ ایک کے بعد ایک جنگل کٹتے گئے، کھیت اجڑتے گئے، باغ غائب ہوتے گئے اور بچیں تو فقط ’کالونیاں‘ اور ان کے پیچھے وہ کھیت جن کے مالکان دھڑکتے دلوں کے ساتھ خریداروں کے منتظر ہیں کہ ہے کوئی سخی جو ہم سے یہ زمین بھی خرید کے اس پہ کالونی بسا دے؟
کل کتنے ہی برس کے بعد تھانے سے مڑ کے نہر کا پل پاس کیا تو یوں لگا کہ گڑھے میں پڑی جانوروں کی لاشوں پہ منڈلاتے سارے گدھ کھیتوں پہ اتر آئے ہوں۔
جگہ جگہ بغیر منصوبہ بندی کے ننھی ننھی، چند کنالوں کی ’کالونیاں‘ کاٹی گئی تھیں جن کا فضلہ کھیتوں میں جا رہا تھا۔
جن کھیتوں میں ابھی فصل لگی تھی وہاں بھی بینر پھڑ پھڑا رہے تھے اور کئی کھیتوں پہ عدالتی حکم نامے بھی آویزاں تھے۔
سڑک پہ موٹر سائیکل بھررر بھررر اڑے جارہے تھے جن پہ بیٹھے انسان، کینہ توز نظروں سے بچے کھچے کھیتوں کو دیکھ رہے تھے۔
انسان کی عاقبت نا اندیشی کی سڑاند ناقابل برداشت تھی اور زمین کا پنجر دور تک ہاوسنگ کالونیوں سے ڈھکا نظر آرہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جانے انہیں این او سی کون دیتا ہے؟ یہ کالونیاں کون منظور کرتا ہے؟ ان کی منصوبہ بندی کون کرتا ہے اور ان کے مبینہ سرمایہ کاروں کے پیچھے کون ہوتا ہے؟
یہ سوال مجھ جیسے غبی اور کم عقل لوگ پوچھتے ہیں۔ سیانے یہ کرتے ہیں کہ جونہی ان کی زمین پہ کوئی کالونی بنانے کے لیے چند لاکھ کی پیش کش کرے وہ فٹافٹ اسے بیچ کے، پیسے جیب میں ڈالتے ہیں اور نچنت ہوتے ہیں۔
زمین ماں ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ، یہ فقط ڈائیلاگ ہیں جو فلموں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔
مکانوں کے اس بے ہنگم سلسلے کو دیکھ کر مجھے وہ کھیت بہت یاد آئے جن کے درمیان سے گزرتی پگڈنڈیوں پہ بھورے چوہے اور دھوبن چڑیاں ٹہلا کرتے تھے اور راتوں کو جگنوں کےجھنڈ اترا کرتے تھے۔
جگنو غائب ہوئے، چوہے اورچڑیاں ارتقا کی یہ جنگ لڑ ہی لیں گے لیکن کیا انسان یہ سب کر کے ان کھیتوں میں خسارہ نہیں بو رہا؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔