وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بدھ کو پشاور میں مزدوروں کے لیے دو ہزار سے زائد رہائشی فلیٹس پر مشتمل لیبر کالونی کا افتتاح کر دیا ہے۔
اسے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ’نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم‘ کے تحت بننے والے رہائشی مکانات کا نام دیتی ہے۔
شہر کے ریگی للمہ علاقے میں یہ رہائشی فلیٹس 150 بلاکس پر مشتمل ہیں اور اس کی کل اراضی 500 کنال ہے۔
ہر بلاک میں 765 مربع فٹ پر آٹھ فلیٹس تعمیر کیے گئے ہیں، جو مختلف کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو آسان اقساط پر دیے جائیں گے۔
ہر بلاک چار منزلہ ہے اور فلیٹس کے ساتھ اس منصوبے میں سڑکیں، پانی و بجلی کا نظام، گیس اور بیوٹفیکیشن بھی شامل ہے۔
ان فلیٹس کے افتتاح سے قبل پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر تشہیر کرتی رہی کہ اس نے بےگھر مزدوروں کے ساتھ ایک اور وعدہ پورا کر دیا اور آج ان کے اپنے مکان کا خواب پورا ہو جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کے آفیشل فیس بک پیج سے اسی منصوبے کے حوالے سے ہونے والی پوسٹ میں اس کو ’نیا پاکستان ہاؤسنگ‘ منصوبے کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔
صوبائی وزیر برائے محنت شوکت یوسفزئی نے لیبر کالونی کے حوالے سے میڈیا کو شیئر کی گئی تفصیلات میں لکھا کہ منصوبے پر پانچ ارب روپے سے زائد لاگت آئی اور مجموعی فلیٹس کی تعداد 2055 ہے۔
شوکت یوسفزئی کے مطابق ہر فلیٹ کی خریداری پر مزدور کو تین لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی اور اسے حاصل کرنے کے لیے تین سال کسی بھی صنعت میں کام کرنا لازمی ہوگا۔
’ایسا منصوبہ پہلی مرتبہ متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں مزدوروں کو بہت سی سہولیات کے ساتھ مالکانہ حقوق پر فیلٹس دیے جا رہے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ان فلیٹس کی تعمیر کی حقیقت جاننے کے لیے مختلف ذرائع سے جاننے کی کوشش کی کہ آیا واقعی یہ لیبر کالونی پی ٹی آئی حکومت نے تعمیر کی ہے اور کیا واقعی یہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا حصہ ہے۔
منصوبہ کب منظور کیا گیا؟
پشاور کے علاقے ریگی للمہ میں مزدوروں کے لیے بنائی گئی اس لیبر کالونی کی منظوری 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی دور میں دی گئی تھی۔
اسی سال اس منصوبے کا پی سی ون تیار کیا گیا، جس کے بعد تعمراتی کام 2011 میں شروع ہوا۔ ابتدا میں ان فلیٹس کی تعداد 1200 تھی لیکن سال 2013 میں ایک ہزار مزید فلیٹس تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی۔
یہ منصوبہ مزدورں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے ورکرز ویلفئیر بورڈ کا تھا اور اس کے لیے فنڈز کی منظوری اسی بورڈ کے تحت قائم ورکرز ویلفیئر فنڈ سے لی گئی تھی۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ ایک وفاقی ادارہ ہے جبکہ اسی کے زیر انتظام صوبوں میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ادارے چلتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک بورڈ آف گورنرز ہے۔
ورکرز ویلفیئر بورڈ نے پشاور سمیت حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں مزدوروں کے لیے رہائشی فلیٹس تعمیر کیے، جن کا افتتاح بھی عمران خان نے رواں سال مارچ میں کیا تھا۔
وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے فلیٹس کو بھی نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا منصوبہ قرار دیا تھا۔
عمران خان نے اسلام آباد میں افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ ’حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم شروع کی ہے جس کے تحت مزدور اور غریب طبقے کو مکانات ملیں گے۔‘
وفاقی وزیر برائے سمند پار پاکستانی زلفی بخاری نے، جنہوں نے اب استعفیٰ دے دیا ہے، بھی تقریب سے خطاب میں کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا یہ پہلا منصوبہ ورکرز ویلفیئر فنڈ نے مکمل کیا ہے۔
جس وقت اس کالونی کی منظوری دی جا رہی تھی، اس وقت صوبے میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت تھی۔
اس وقت کی کابینہ کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کی لیبر کالونی پر کام اپریل 2011 میں شروع ہوا تھا اور 2020 میں تکمیل تک پہنچا لیکن اب بھی اس میں تھوڑا بہت کام باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کا بریک ڈاؤن کچھ اس طرح ہے کہ اس فنڈ میں 68 فیصد فنڈ سندھ سے آتا ہے کیونکہ وہاں کارخانے زیادہ ہیں جبکہ لاہور سے 29، خیبر پختونخوا سے دو اور بلوچستان سے ایک فیصد رقم اس فنڈ میں جمع ہوتی ہے۔
’کارخانے یہ رقم مزدوروں کی آمدنی کا چھ فیصد حصہ کاٹ کر اس فنڈ میں جمع کراتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وفاقی حکومت اس فنڈ میں کچھ جمع کراتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جس وقت ’ہماری حکومت تھی تو اس وقت تو مرکزی حکومت ورکرز ویلفیئر فنڈ کی تین ارب روپے مقروض تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پشاور، تخت بائی اور ہری پور کے حطار میں مزدوروں کے لیے ان فلیٹس کی منظوری دی گئی تھی۔ بعد میں 2013 میں ان منصوبوں کا افتتاح بھی اس وقت کے پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر محنت شیر اعظم وزیر اور موجودہ رکن اسمبلی نے کیا تھا۔ اب وہ پرانی تختیاں ہٹائی گئی ہیں اور اس کا دوبارہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق، ابتدا میں تین ارب سے زائد روپے پشاور کے 1200 فلیٹس کی تعمیر کے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈ کی جنرل باڈی کے اجلاس میں منظور کیے تھے۔
بعد ازاں نومبر 2013 میں ورکرز ویلفیئر فنڈ نے 1000 مزید فلیٹس بنانے کی منظوری دی جس کا تخمینہ ایک ارب 70 کروڑ تھا۔ اس کی منظوری بھی ورکرز ویلفیئر بورڈ نے دی تھی۔
دستاویزات کے مطابق پہلے 1200 فلیٹس پر 80 فیصد کام دسمبر 2018 تک مکمل ہوگیا تھا جبکہ باقی ماندہ 1000 فلیٹس پر کام دسمبر 2018 تک 65 فیصد مکمل ہوا۔
دستاویزات کے مطابق 2018 میں پشاور کی لیبر کالونی پر کام سست روی کا شکار تھا جس پر ورکرز ویلفئیر کے حکام نے بتایا تھا کہ اس کی وجہ فنانس ڈویژن سے فنڈز نہ ملنا تھا کیونکہ فلیٹس پر کام مکمل کرنے کے لیے تقریباً ایک ارب روپے مزید درکار تھے۔
اس رقم کی منظوری 2018 میں ورکرز ویلفیئر فنڈ کی جنرل باڈی نے دی تھی۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ کو پیسے کہاں سے ملتے ہیں؟
ورکرز ویلفیئر فنڈ کو ایک آرڈیننس کے ذریعے 1971 میں قائم کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں مزدوروں کو مکانات اور ان کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا۔
فنڈ کے قیام کے بعد اسی سال وفاقی حکومت نے 10 کروڑ روپے جمع کیے تھے۔ اس قانون کے تحت وہ کارخانے جن کی آمدن سالانہ پانچ لاکھ روپے سے زائد ہو، ان کو اپنی آمدنی کا دو فیصد سالانہ اسی فنڈ میں جمع کرنا لازمی ہوگا۔
ورکرز ویلفیئر فنڈ کے قانون کے مطابق اگر کسی کارخانے نے اسی فنڈ میں روپے جمع نہیں کیے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، جس میں جرمانہ بھی شامل ہے۔
ورکرز ویلفئیر فنڈ آرڈیننس کی شق چھ کے مطابق فنڈ میں جمع ہونے والی رقم مزدوروں کے لیے مکان بنانے، ان کی تربیت، تعلیم اور دیگر فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیبر پختونخوا ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ایک رکن نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آج بھی یہی قانون موجود ہے اور ہر ایک کارکانہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ اس فنڈ میں جمع کراتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ورکرز ویلفئیر کے تحت چلنے والے بورڈز مختلف صوبوں میں موجود ہیں اور کارخانوں سے یہ فنڈ بورڈز والے اکھٹا کرتے ہیں اور اس کو وفاق میں قائم ورکرز ویلفیئر فنڈ میں جمع کراتے ہیں۔
’جہاں بھی ورکرز ویلفئیر بورڈ کے مزدوروں کے لیے فلیٹس ہیں وہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کے پیسوں سے تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ کسی بھی سطح پر نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم یا کسی اور سکیم کا حصہ نہیں۔‘
حکومت کیوں لیبر کالونی کو نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا منصوبہ ظاہر کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا۔
البتہ جب خبر چھپنے کے بعد صحافی عمر چیمہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ’کل محنت کشوں کے وزیراعظم نے نیا پاکستان منصوبے کے نام پر مزدوروں کیلئے فلیٹس کا افتتاح کیا سوشل میڈیا ٹیم نے شکرانے کے ٹویٹ کئے میڈیا میں اشتہارات شائع ہوئے لیکن @Izhar2u نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان فلیٹس پر کام 2011 میں شروع کیا تھا جو 2020 میں مکمل ہوا۔‘
مذکورہ فلیٹس کےفیز1میں تقریباً آدھےفلیٹس 2011میں شُروع ہوئےجبکہ باقی فلیٹس 2013 میں شروع ہوئےتاہم ورکرز ویلفئیرفنڈ وفاقی محکمہ ہونے کی وجہ سے نواز دور میں خیبرپختونخواکےفنڈز بندکروائےگئے جس سے یہ منصوبہ بھی نامکمل رہا۔وزیراعظم نے2018 کےبعدخطیرفنڈز جاری کئے جس سے یہ سکیم مکمل ہوا https://t.co/UjIPnO9zsS
— Kamran Bangash (@kamrankbangash) May 20, 2021
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات کامران بنگش اس کے جواب میں ٹویٹ کر کے کہا کہ ’نواز دور میں خیبرپختونخواکےفنڈز بندکروائے گئے جس سے یہ منصوبہ بھی نامکمل رہا۔وزیراعظم نے2018 کےبعدخطیرفنڈز جاری کئے جس سے یہ سکیم مکمل ہوا۔‘