الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکم کے مطابق انتخابی کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیے ہیں۔ صوبے میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر 2023 کو ہوں گے۔
حکم نامے کے مطابق الیکشن ملتوی کرنے کی وجہ امن و امان کی صورت حال اور مالی و انتظامی بحران کو قرار دیا گیا ہے جب کہ صدر مملکت کو اس فیصلے سے اگاہ کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے چھ صفحات پر مشتمل حکم نامے کے مطابق انتخابات کا شیڈول الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 218 کی ذیلی شق تین کے تحت ملتوی کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے بدھ کی رات جاری کیے گئے آرڈر کے مطابق ’پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق نگران حکومت پنجاب، وفاقی وزارت دفاع، خزانہ اور داخلہ کی امن و عامہ کی رپورٹس کی روشنی میں پیر، منگل اور بدھ کو الیکشن کمیشن کے مرکزی سیکریٹریٹ میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔‘
’الیکشن کے انعقاد سے متعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہونے والے مختلف اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ ’صوبے میں امن وامان کی صورت حال الیکشن کے لیے سازگار نہیں ہے۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔‘
حکم نامے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’امن و امان یقینی بنانے کے لیے وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو فوج کے دستے طلب کرنے کی ہدایت کی گئی تاہم کمیشن کو بتایا گیا کہ سرحد پر امن و امان کی صورت حال اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث فوج الیکشن کے لیے مکمل ڈیوٹی نہیں دے سکتی۔‘
آرڈر کے مطابق ’فوج الیکشن میں صورت کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کرے گی۔ کمیشن نے اپنے حکم نامے کے متن میں کہا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی بحران سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔‘
حکم نامے میں صوبے بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے گئے حالات کے باعث 30 اپریل کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے اس لیے الیکشن کمیشن آٹھ مارچ کو جاری کردہ شیڈول سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اب الیکشن آٹھ اکتوبر کو منعقد کرایا جائے گا جس کے لیے مناسب وقت پر نیا شیڈول جاری کیا جائے گا۔‘
حکم نامے میں الیکشن کمیشن اور عدالتوں کے مختلف فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
آرڈر میں کہا گیا کہ ’اجلاس میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے اعلان کردہ انتخابات سے متعلق بحث ہوئی جبکہ الیکشن کمیشن کے سامنے رکھی گئی رپورٹس، بریفنگز اور دوسرے مواد کا جائزہ لیا گیا۔‘
اعلان کے مطابق ’اجلاس طویل بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ موجودہ صورت حال میں پنجاب اسمبلی کے لیے پر امن ماحول میں دستور پاکستان کے مطابق منصفانہ، ایماندار اور شفاف انتخابات کروانا ممکن نہیں ہے۔‘
آرڈر میں کہا گیا کہ ’اس صورت حال کے پیش نظر اجلاس نے پنجاب اسمبلی کے اعلان کردہ انتخابات کا انتخابی اعلان واپس لینے کا فیصلہ کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کے اجلاس نے ’انتخابی پروگرام اسی سال 8 اکتوبر کو جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔‘
آرڈر کے مطابق اجلاس میں چیف الیکشن کمیشنر سکندر سلطان راجا کے علاوہ اراکین شاہ محمد جتوئی، نثار احمد درانی، بابر حسن بھروانہ اور جسٹس اکرام اللہ خان نے شرکت کی۔
الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے پنجاب کے انتخابات ملتوی کری آئین شکنی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سب کو وکلا، عدلیہ اور عدالتی کمیونٹی کے پیچھے کھڑے ہونا ہو گا۔ ہمیں امید ہے کہ وہ آئین کا تحفظ کریں گے۔‘
By postponing Punjab elections till Oct ECP has violated the Constitution. Today everyone must stand behind the legal community - the judiciary & lawyers - with expectation that they will protect Constitution. For if this is accepted today then it is the end of Rule of Law in Pak
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) March 22, 2023
الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ آرڈر سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ ’ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا مستقل موقف رہا کہ آئین میں ان کا اختیار ہی نہیں کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ۔ آج یہ کون سی شق ہے آئین کی جس کی بنیاد پر الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے؟‘
ہائ کورٹ اور سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا مستقل موقف رہا کہ آئین میں ان کا اختیار ہی نہیں کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ۔ آج یہ کون سی شق ہے آئین کی جس کی بنیاد پر الیکشن کی نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے؟
— Asad Umar (@Asad_Umar) March 22, 2023
پاکستان تحریک انصاف اس سے قبل بھی الیکشن میں ممکنہ تاخیر پر تنقید کر چکی ہے جبکہ جماعت کے سربراہ عمران خان الیکشن وقت پر کروانے کے لیے ’آئینی تحریک‘ چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
پارلیمان میں انتخابات میں تاخیر کی بازگشت
اس سے قبل سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس کا محور سیاسی صورت حال اور آئندہ انتخابات رہے۔
ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات پر بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ رہی ہے۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا ’آئین میں جہاں 90 روز میں الیکشن کروانے کی پابندی ہے کیا وہاں صاف شفاف الیکشن کے انعقاد کی پابندی نہیں ہے؟ کیا صوبے میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی الیکشن میں لیول پلینگ فیلڈ ہوگی؟ ہم چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوں اور صاف شفاف ہوں۔‘
انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ’اس سے پہلے 60 یا 90 دنوں کے بعد الیکشن نہیں ہوئے؟ 30 اپریل کی تاریخ بھی آئینی مدت کے باہر ہے۔ پنجاب میں الیکشن پہلے ہو گئے تو حکمران جماعت کو برتری ہو گی۔‘
’اس طرح کا الیکشن افراتفری، انارکی اور عدم استحکام لائے گا۔‘
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی، سیاسی اور انتظامی بحران پیدا کیا گیا ہے‘ اور اس میں مسلسل اضافہ کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا ’حالات خراب نہیں ہیں لیکن انہیں خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران نے انارکی پیدا کی تاریخ کا حصہ ہے۔‘
وزیر داخلہ نے سابق وزیر اعظم پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گرد تنظیموں سے منسلک افراد اور شرپسند عناصر زمان پارک میں اسلحے کے ساتھ موجود تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’مسلح جتھوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
سیاسی مبصرین کے مطابق انتخابی کمیشن کے فیصلے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔