پاکستان کی ٹیلی ویژن کی تاریخ میں اگر مزاحیہ کرداروں کی فہرست بنائی جائے، تو مقبولیت کے حساب سے مومو کا کردار یقیناً پہلے دس میں ہی شمار ہو گا۔
حنا دل پذیر نے یہ کردار کچھ اس خوبی سے نبھایا کہ مومو ہر ایک کو اپنی اپنی سی لگتی ہیں۔
یہ بات شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ مومو کا کردار ’بلبلے‘ میں صرف ایک ہی قسط کے لیے تخلیق کیا گیا تھا، مگر حنا دل پذیر کا ایک موٹی سی عینک میں بھلکڑ خاتون کا کردار اتنا مقبول ہوا کہ اسے مستقل کر دیا گیا۔
ان دنوں حنا دل پذیر اپنے ایک ٹی وی سیریل ’ہاسٹل لائف‘ کی عکس بندی میں مشغول تھیں جب ہم نے اسی کے سیٹ پر ان سے چند منٹ مانگ لیے۔
انتہائی زیادہ کام ہونے کے باوجود حنا عرف مومو نے ہمیں منع نہیں کیا صرف انتظار کرنے کو کہا اور پھر جیسے ہی انہیں وقت ملا وہ ہمارے سامنے آ بیٹھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین و ناظرین کے لیے ان کا یہ پہلا انٹرویو پیش خدمت ہے۔
ان سے پہلا سوال ہاسٹل لائف، جس کے سیٹ پر ہم موجود تھے، اسی کے بارے میں تھا کہ وہ اتنے طویل عرصے کے بعد کسی سیریل میں کام کررہی ہیں، تو ایسا کیوں؟
ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ حنا دل پذیر نے کہا کہ ’اچھے کردار اور سکرپٹ ان تک آتے آتے دیر ہو جاتی ہے۔‘
ہاسٹل لائف میں اپنے کردار کے بارے میں حنا نے کہا کہ ’کسی سخت مزاج کردار کے پس منظر کی کہانی نہیں بتائی جاتی، جب کہ اس میں ایسا نہیں، اس میں ہر کردار کا ایک باقاعدہ پس منظر ہے۔‘
کم سیریل کرنے کے جواب میں انہوں نے ایک شکوہ بھی کیا کہ ’جب میں ٹی وی میں آئی تو کریکٹر ایکٹنگ کی، پھر ’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ کیا جو 80 سال کی ایک عمر رسیدہ خاتون کا کردار تھا۔
’اب جب بھی مجھے سیریل میں لیا جاتا ہے تو ساتھ کے تمام بزرگ فنکاروں کی امی کا کردار ملتا ہے۔ کبھی کسی جانب سے مجھے کسی مشکل کردار کی پیشکش ہوئی ہی نہیں اس لیے کم ہی کیا ہے، اب آگے امید ہے کہ اچھا ہو گا۔
’میں سمجھتی ہوں کہ انڈسٹری مجھ سے جو کام لے سکتی تھی، وہ اس انڈسٹری نے نہیں لیا، لیکن میں شکایت نہیں کرتی۔‘
’قدوسی صاحب کی بیوہ‘ اور ’بلبلے‘ کے بعد مجھے کبھی کوئی اچھا کردار ملا ہی نہیں۔ ’جس طرح کے ڈراما سیریل مجھے ملے، ان میں سے دو تین کے بارے میں تو مجھے افسوس ہے کہ وہ میں نے کیے ہی کیوں، معاف کیجیے گا بہت ہی گھٹیا سکرپٹ تھے۔‘
حنا دل پذیر نے بتایا کہ قدوسی صاحب کی بیوہ میں جو کردار کیے تھے، وہ کردار انہوں نے دیکھے بھی ہوئے ہیں کیوں کہ کہانیاں تو ایسے ہی لکھی جاتی ہیں، تو کسی کی کوئی عادت، بولنے کا انداز اسی سے مل کر کردار بنتے ہیں۔
حنا نے کہا کہ ’یہ میری نہیں، اُن کی نااہلی ہے کہ جیسے کردار میں کر سکتی تھی، وہ مجھے نہیں دیے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے کردار مومو کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس موٹی سی عینک کا انتظام اس لیے ہی کیا تھا کہ ایک ہی قسط ہے کر لیں گے، لیکن سب کچھ اچھا ہوگیا، سِٹ کام میں وہ سب سے بہتر ہے آج بھی۔
عکس بندی کے دوران اتنی موٹی عینک پہننے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کافی مشکل ہے مگر کرتے کرتے کچھ طریقے ڈھونڈ ہی لیے، جیسے لانگ شاٹس میں یا تو عینک کے اوپر سے دیکھ لیتی ہوں، یا آنکھیں بند رکھتی ہوں۔ جب کلوز اپ لیے جاتے ہیں، صرف تب ہی آنکھیں کھولنی پڑتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک بار ہی کام کر کے اچھا لگا تھا اور جب معلوم ہوا کہ اسے بڑھائیں گے تو واپس گئے اور آج تک وہ چل رہا ہے، اور کامیابی سے چل رہا ہے۔
حنا دل پذیر کو دنیا مومو کے نام ہی سے جانتی ہے کیوں کہ بلبلے مقبول بہت ہے اور وہ بار بار آتا بھی ہے جس میں انہیں بہت خوشی ہے۔
حنا دل پذیر کے خیال میں بلبے ایک مزاحیہ کھیل ہے جو پہلے بڑوں کے لیے تھا، مگر اب یہ بچوں کے لیے ہے۔
رواں برس عید پر اپنی آنے والی فلم ’منی بیک گارنٹی‘ میں اپنے کردار کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سندھی خاتون کا کردار کررہی ہیں جس کا شوہر اس سے عمر میں چھوٹا ہے۔ فلم میں گوہر رشید ان کے شوہر کا کردار کررہے ہیں۔
’اس فلم کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس لحاظ سے بہت اچھا ہے، لیکن وسیم اکرم یا فواد خان کے ساتھ میرے سین نہیں ہیں۔‘