وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا ہے کہ ’آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوس ناک ہے۔‘
صدر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا، جس میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ممکنہ التوا اور تحریک انصاف کے اراکین کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
اتوار کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے لکھا گیا جوابی خط جاری کیا ہے۔
پانچ صفحات اور سات نکات پر مشتمل وزیراعظم کے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ ’صدر کا خط تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتی ہے۔ بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طورپر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوس ناک ہے۔‘
وزیراعظم نے صدر عارف علوی کو مخاطب کرکے اپنے خط میں کہا: ’آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کر دوں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا۔‘
مزید کہا گیا: ’آپ نے دو صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا۔‘
وزیراعظم نے صدر عارف علوی کو مخاطب کرکے مزید کہا: ’صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی و قانونی مقصد کے لیے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں، آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کروانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائے گا۔
’آپ نے آرٹیکل 218 کی شق تین کے تحت شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کر دیا۔‘
خط کے مطابق: ’الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر 2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے۔ تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمشن کو مہیا کی ہیں۔ الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمشن کو سونپی ہے۔ الیکشن کمشن نے طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخاب کرانے کے لیے آرٹیکل 218 تین کے تحت سازگار ماحول موجود ہے۔‘
وزیراعظم نے آئینی حوالے لکھتے ہوئے نشاندہی کی کہ ’آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق 15 پانچ بی کی صدر کی تشریح درست نہیں۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں۔
آئین کے آرٹیکل 48 شق ون کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔
’صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم۔ وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر کی مشاورت کا پابند نہیں۔‘
وزیراعظم نے مزید لکھا: ’جناب صدر، میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں۔ حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طور پر منتخب حکومت کوکمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں، بلکہ خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ یہ خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں۔‘
خط میں مزید لکھا گیا: ’تین اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا، قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے سات اپریل کو غیر آئینی قرار دیا۔ آرٹیکل 91 شق پانچ کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے، کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم شہباز شریف نے خط میں صدر پاکستان کو کہا کہ ’آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاست دانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے اور چار کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لیے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔‘
وزیراعظم نے لکھا: ’صدر پاکستان نے جماعتی وابستگی کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کر دیا، نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا، صدر نے پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو بھی نظر انداز کیا۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘
بقول وزیراعظم: ’ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اس بارے میں آواز بلند نہیں کی۔ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ2022 کی طرف دلاتا ہوں۔‘
مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔ رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے، پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمشن معطل رہا، قومی کمشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پی ٹی آئی نے اپنے دور میں سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا۔ افسوس بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی ان میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔ آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی ان خلاف ورزیوں پر اس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’صدر نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزراکے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر اعتراض نہیں کیا۔ سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کر رہے ہیں۔‘
صدر مملکت نے اپنے خط میں شہباز شریف کو آئین پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ظاہر ہے یہ بات ان کو تحریک انصاف کی پریس ریلیز ہی نظر آئیگی۔ اگر صدر کے اسمبلی توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کا اقدام پر عمل ہوتا آج ملک اس آئینی،سیاسی اور معاشی گرداب میں نہ ہوتا اور ہم مستحکم جمہوریت ہوتے
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 26, 2023
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے وزیراعظم کی جانب سے صدر مملکت کے خط کے جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر مملکت نے اپنے خط میں شہباز شریف کو آئین پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ظاہر ہے یہ بات ان کو تحریک انصاف کی پریس ریلیز ہی نظر آئے گی۔‘
فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اگر صدر کے اسمبلی توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کے اقدام پر عمل ہوتا تو آج ملک اس آئینی، سیاسی اور معاشی گرداب میں نہ ہوتا اور ہم مستحکم جمہوریت ہوتے۔‘
صدر عارف علوی کا وزیراعظم کو خط
صدر مملکت نے دو روز قبل وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر انتخابات کے ممکنہ التوا اور تحریک انصاف کے اراکین کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے خط میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے اور سیاسی کارکنوں کے گھر گرفتاریاں روکنے پر زور دیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔
عارف علوی نے لکھا تھا کہ آرٹیکل 105 یا 112 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں، سپریم کورٹ نے ای سی پی کو صدر کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا حکم دیا، گورنر خیبرپختونخوا کو بھی صوبائی اسمبلی کے لیے ٹائم فریم کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔