امریکی پولیس کے مطابق پیر کو ریاست ٹینیسی کے دارالحکومت نیش وِل میں کرسچیئن ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کرکے چھ افراد کو قتل کرنے والے حملہ آور نے اسی سکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق سکول میں کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونے والوں میں نو سال کے تین بچے، سکول کی اعلیٰ منتظم، متبادل استاد اور ایک نگران شامل ہیں۔ پولیس نے حملہ آور کو بھی فائرنگ کرکے مار دیا تھا۔
فائرنگ کے واقعے کے بعد خوف زدہ والدین سکول کی طرف دوڑ پڑے تاکہ معلوم کر سکیں کہ ان کے بچے خیریت سے ہیں۔ اس موقعے پر ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جہاں روتے ہوئے والدین بچوں کو گلے لگا رہے تھے۔
میٹروپولیٹن نیش ول پولیس کے سربراہ جان ڈریک نے متعدد نیوز کانفرنسز میں سے ایک کے دوران بتایا: ’میں یہ منظر اور بچوں کو عمارت سے باہر لے جاتا دیکھ کر عملی طور پر رو پڑا۔‘
حملہ آور کی جنس کے بارے میں ابہام
ابتدا میں پولیس نے حملہ آور کی جنس کے بارے میں واضح معلومات فراہم نہیں کیں، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ سکول میں فائرنگ کے بعد دو پولیس افسروں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے حملہ آور کو گولی مار کر قتل کر دیا۔
بعدازاں کئی گھنٹے بعد پولیس نے حملہ آور کی شناخت 28 سالہ خاتون کے طور پر کرتے ہوئے ان کا نام آڈری ہیل بتایا۔ اس کے بعد کی گئی ایک پریس کانفرنس میں پولیس چیف نے کہا کہ ہیل ٹرانس جینڈر تھا۔ تاہم پولیس کے ترجمان ڈان آرون نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ہیل کو کیسے شناخت کیا گیا؟
صحافیوں کے سوال پر نیش ول پولیس کے سربراہ جان ڈریک نے حملہ آور کے مقاصد نہیں بتائے تاہم انہوں نے حملے سے پہلے فائرنگ کرنے والے کی طرف سے کی گئی منصوبہ بندی کی خوفناک مثالیں دیں۔
’حملہ آور نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی‘
پولیس کے مطابق حملہ آور نے سکول کا تفصیلی نقشہ تیار کرنے کے بعد عمارت کی نگرانی کرتے ہوئے قتل عام کی منصوبہ بندی کی۔
جان ڈریک کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس (حملہ آور کا) منشور ہے، ہمارے پاس اس واقعے کی تاریخ، عملی واقعے سے متعلق چند تحریریں ہیں، جن کا ہم جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمارے پاس نقشہ ہے کہ یہ سب کیسے وقوع پذیر ہو گا۔‘
این بی سی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں جان ڈریک کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ ہیل کو ’اس سکول سے متعلق غصہ تھا۔‘
بعد ازاں پولیس نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ حملہ آور نے سکول کی عمارت کے اندر داخل ہونے کے لیے شیشے کے دروازوں پر فائرنگ کر کے انہیں توڑا۔
حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور کے پاس دو آتشیں ہتھیار، ایک پستول اور دو اے کے 47 رائفلیں تھیں۔
پولیس سربراہ کے مطابق ان ہتھیاروں میں سے کم از کم دو کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ نیش ول کے علاقے میں قانونی طور پر حاصل کی گئی تھیں۔
پولیس نے بتایا کہ حملہ آور کے گھر کی تلاشی کے دوران آرے سے کاٹی گئی شاٹ گن اور دیگر شواہد ملے جن کی وضاحت نہیں کی گئی۔
فائرنگ کے واقعے میں جان سے ہاتھ دھونے والے بچوں کی شناخت، ایولن ڈیک ہاؤس، ہیلی سکرگز اور ولیم کینی کے نام سے ہوئی۔ تمام بچوں کی عمر نو سال ہے۔
جبکہ جان سے جانے والے بالغ افراد میں 61 سالہ سنتھیا پیک، 60 سالہ کیتھرین کونس اور 61 سالہ مائیک ہل شامل ہیں۔
دا کوونینٹ سکول 2001 میں قائم کیا جانے والا پریسبیٹیرین سکول ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر کیتھرین کونس کا نام سکول کی سربراہ کے طور پر درج ہے۔ ان کے لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق انہوں نے جولائی 2016 میں سکول کی سربراہی سنبھالی۔
تفتیش کاروں کے مطابق سنتھیا پیک ایک متبادل ٹیچر تھیں اور مائیک ہل نگران تھے۔
’دل دہلا دینے والا واقعہ‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے سکول میں فائرنگ کے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’یہ سب بہت غلط ہوا۔ ہم اب بھی حقائق جمع کر رہے ہیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا اور ہم جانتے ہیں کہ اب تک بہت سے لوگ جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ نہیں بچ سکے ہیں۔ یہ واقعہ دل دہلا دینے والا ہے، کسی بھی خاندان کے لیے ایک ڈراؤنے خواب جیسا ہے۔‘
امریکی صدر نے مزید کہا: ’میں پولیس کی تعریف کرنا چاہتا ہوں جس نے فوری ایکشن لیا اور ناقابل یقین حد تک تیزی سے جواب دیا اور منٹوں میں خطرے کو ختم کردیا۔ ہم اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
صدر بائیڈن نے امریکہ میں اسلحے کے تشدد کو روکنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا:’ ہمیں اسلحے کے تشدد کو روکنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہماری برادریوں کو جدا کر رہا ہے۔ اس قوم کی روح کو توڑ رہا ہے۔ ہمیں اپنے سکولوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ وہ جیلوں میں تبدیل نہ ہو جائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ اس واقعے میں حملہ آور کے پاس مبینہ طور پر دو آتشیں ہتھیار ایک پستول اور دو اے کے 47 رائفلیں تھی، لہٰذا میں ایک بار پھر کانگریس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق قانون کی منظوری دیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں مزید پیش رفت کریں۔‘