خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گذشتہ رات پولیس گاڑی پر شدت پسندوں کے حملے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اقبال مہمند سمیت چار پولیس اہکار جان سے گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق ڈی ایس پی کی گاڑی تھانہ صدر پر حملے کے بعد مزید نفری کے ساتھ پولیس سٹیشن جاتے ہوئے مائن دھماکے سے اڑائی گئی۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے اور تنظیم کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں ڈی ایس پی اقبال مہمند پر طالبان جنگجوؤں پر حملوں کا الزام لگایا گیا۔
ڈی ایس پی اقبال مہمند گذشتہ تین سالوں سے لکی مروت کے مختف علاقوں میں بطور ڈی ایس پی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ لکی موت کی تحصیل نورنگ کے ڈی ایس پی اور اب لکی سٹی میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
پشاور کے علاقے ادیزئی سے تعلق رکھنے والے اقبال مہمند 1985 میں پیدا ہوئے تھے۔
ڈی ایس پی اقبال مہمند کی تصاویر اور اس واقعے پر اظہار افسوس کا نہ رکنے والا سلسلہ صبح سے سوشل میڈیا پر جاری ہے اور اس کی خاص بات ڈی ایس پی اقبال مہمند کا شعر و ادب سے تعلق تھا، کیونکہ ان کے اشعار کو پشتونوں میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
اقبال مہمند پیشے کے لحاظ سے تو ایک پولیس افسر تھے تاہم وہ شاعری بھی کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے مطابق وہ انقلابی شاعر تھے۔
سوشل میڈیا پر ان کے چاہنے والے اقبال مہمند کے اشعار شیئر کر کے اس واقعے پر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔
پشاور یونیوسٹی کے شعبہ صحافت کے استاد ڈاکٹر بخت زمان یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اقبال مہمند کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مرحوم کو 2004 سے جانتے ہیں جب وہ دونوں ریڈیو پاکستان میں ’کاروان‘ نامی پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا: ’ایک انقلابی شاعر اور اس خطے پر مر مٹنے والی شخصیت تھی جو کبھی جنگ کی بات نہیں کرتے تھے بلکہ اشعار میں ہمیشہ امن کی بات ہی کرتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خیبر پختونخوا پولیس کے ڈی پی او عمران کے مطابق اقبال مہمند ایک بہادر افسر ہونے کے علاوہ ایک متاثر کن شاعر تھے، جن کا کلام پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔
عمران نے اپنے ٹوئٹر پر اقبال مہمند کے ساتھ ایک یادگار تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اس وقت کی تصویر ہے جب اقبال مہمند نے اغوا برائے تاوان کی غرض سے اغوا نوجوان کو وزیرستان کی پہاڑوں سے بازیاب کرایا تھا۔‘
اقبال مہمند خطے میں جاری جنگ کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
امن بہ راشی، دا پشتون وطن بہ خدای آباد کڑی [امن آئے گا اور خدا اس پشتون وطن کو آباد کرے گا]
نیکہ می پلار تہ، پلار می ماتہ، ما بچو تہ وییل [دادا نے والد کو، والد نے مجھے اور میں نے بچوں کو کہا]
اقبال مہمند اپنے اشعار میں امن کا درس بھی دیتے تھے۔ انہی کا لکھا ہوا ایک شعر کچھ یوں ہے
ستا اور زما پختو یوہ دہ خو بس [تمھاری اور میری پشتو ایک ہی ہے لیکن ]
تہ پہ ٹوپک، زہ پہ خبرہ مڑ یم [تم بندوق اور میں بات چیت پر مر مٹتا ہوں]
اقبال مہمند کا امن کے حوالے سے کچھ اشعار اردو ترجمے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
دا سڑی پہ نوم سڑی وژنی اقبالہ [یہ بندے کے نام کے بندے مارتے ہیں]
گنی زہ خو منکر نہ یم لہ جہادہ [ورنہ میں تو جہاد کا انکاری نہیں ہوں]
چی تکمیل د امیدونو پکی خاندی [جہاں امیدوں کی تکمیل مسکرا سکے]
ہغہ دار تہ بہ اقبالہ پی خندا زم [اس دار تک میں خوشی سے جاؤں گا]
یہ خدایہ یو سو کالہ می نور امن کی وساتہ [اے خدایہ کچھ سالوں تک مجھے امن میں رکھیں ]
ساہ بہ می د مور راپسی لاڑہ شی کا مڑ شومہ [مری ماں کی سانس رک جائے گی اگر مرگیا]