پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں کیے گئے ایک مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 12 شدت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا۔
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ لکی مروت میں خفیہ معلومات کی بنا پر آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں ان شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق: ’شدت پسندوں کی نقل و حرکت کو گذشتہ ایک ہفتے سے مانیٹر کیا جارہا تھا اور ان کو دھوکے سے ایک گاڑی دے کر فرار ہونے کے لیے راستہ بنایا گیا لیکن راستے میں سکیورٹی فورسز نے ان کو گھیر لیا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’شدت پسندوں سے اسلحہ اور افغان کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے جبکہ اسی علاقے میں سکیورٹی فورسز کلیئرنگ آپریشن کر رہی ہیں۔‘
دوسری جانب خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے اظہر الدین گروپ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند لکی مروت سے ٹانک کی طرف کارروائی کے لیے جارہے تھے، جنہیں پولیس اور فوج کی مشترکہ نفری نے بلاک لگا کر روکا۔
پولیس کے مطابق: ’شدت پسندوں کی فائرنگ سے سکیورٹی فورسز کے اہلکار محفوظ رہے جبکہ پولیس نے راکٹ لانچر سے گاڑی کو نشانہ بنایا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’شدت پسند گروپ لکی مروت میں پولیس کے خلاف شدت پسند کارروائیوں میں ملوث تھا اور دسمبر 2022 میں اس نے چھ پولیس اہلکاروں کو بھی قتل کیا تھا۔ ‘
اس آپریشن کے حوالے سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ایک اعلامیہ بھی جاری ہوا ہے، جس میں شدت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کیا اور علاقے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
ٹی ٹی پی کے مطابق: ’آپریشن کے دوران عام شہریوں اور مال مویشیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے،‘ تاہم سکیورٹی فورسز اور پولیس کے ذرائع اس بات کی تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آپریشن میں شدت پسند گروپ اظہر الدین کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
لکی مروت میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کا مشترکہ آپریشن گذشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جاری تھا، جس کے باعث علاقے میں موبائل سگنلز اور انٹرنیٹ کو بھی بند کیا گیا تھا۔
لکی مروت پولیس کے ترجمان شاہد حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ آپریشن تھانہ پیزو کی حدود میں کیا گیا ہے۔
شاہد حامد نے بتایا: ’یہ آپریشن بھی انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن تھا، جو پولیس اور پاکستانی فوج نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔‘
آپریشن کے دوران علاقے کی صورت حال
زبیر مروت زنگی خیل لکی مروت کے مقامی صحافی ہیں، جو آپریشن کے ابتدائی دنوں سے اب تک لکی مروت میں موجود ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک موبائل سگنلز بند تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو رابطے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا: ’جب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، تب سے بازاروں میں بھی عوام کا رش کم تھا کیونکہ لکی مروت کے مرکزی بازار میں زیادہ تر لوگ دیہاتی علاقوں سے آتے ہیں، تاہم اب موبائل سگنلز بحال اور حالات دوبارہ معمول پر آگئے ہیں۔‘
زبیر مروت نے بتایا کہ ’جہاں پر یہ آپریشن ہوا، وہاں سے بعض لوگوں کو گھروں سے محفوظ مقامات پر بھی منتقل کیا گیا تھا جبکہ دن اور رات کو دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سننے کو ملتی تھی۔‘
لکی مروت میں شدت پسندی
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ابتدا ہی سے شدت پسندی سے متاثر رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی و جنوبی وزیرستان شامل ہیں، تاہم ان اضلاع سمیت لکی مروت اور بنوں بھی ماضی میں شدت پسند گروپوں کا گڑھ رہا ہے۔
غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پی آئی ایف ایس) جو سکیورٹی معاملات پر نظر رکھتا ہے، کے مطابق 2022 میں شدت پسند حملوں میں 2021 کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
پی آئی ایف ایس کے مطابق 2022 میں مجموعی طور پر ملک بھر میں 262 حملوں میں سے 169 حملے خیبر پختونخوا میں کیے گئے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع جنوبی وزیرستان کے ہیں، جہاں 30 حملے ہوئے ہیں۔
دوسرے نمبر پر زیادہ حملے شمالی وزیرستان میں 12، لکی مروت میں 13، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر میں 14 حملے ہوئے جبکہ 77 فیصد حملوں میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ملک بھر میں ہونے والے حملوں میں پی آئی ایف ایس کے مطابق 419 افراد ہلاک جبکہ 734 زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی شرح 2021 کے مقابلے میں 2022 میں 25 فیصد زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لکی مروت میں 2010 میں سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، جب لکی مروت کے ایک والی بال گراونڈ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جس بستی میں یہ واقعہ ہوا تھا، اسے اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریباً تمام مرد ہلاک ہوگئے تھے۔
رفعت اللہ اورکزئی گذشتہ 15 سالوں سے شدت پسندی کے امور کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا فوکس ہمیشہ جنوبی اضلاع ہی رہے ہیں اور ان اضلاع میں سینکڑوں شدت پسند کارروائیاں کر چکے ہیں۔
لکی مروت میں مولوی ٹیپو گل کا شدت پسند گروپ بہت سرگرم ہے۔ رفعت اللہ نے بتایا کہ لکی مروت میں شدت پسند کارروائیوں کی ایک وجہ اس گروپ کا ٹی ٹی پی کے ساتھ گذشتہ سال الحاق ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ٹیپو گل کے تین شدت پسند گروپ تھے اور تینوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ ایک دوسرا گروپ اختر گل محسود کا بھی ہے، جس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔‘
رفعت اللہ اورکزئی نے مزید بتایا: ’2021 سے لکی مروت میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں، ان میں ان گروپوں کا ہاتھ ہے جو ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر چکے ہیں۔‘
اس کے علاوہ رفعت اللہ کے مطابق: ’لکی مروت میں اختر خلیل شدت پسند گروپ بھی موجود ہے، جو وزیرستان کے حافظ گل بہادر گروپ کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں دو واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی اہلکاروں کا سر قلم کر دیا گیا تھا اور ان کا الزام اختر خلیل گروپ پر ہے۔‘
رفعت اللہ کے مطابق: ’اختر خلیل گروپ بھی ایک وقت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ملا ہوا تھا، تاہم حافظ گل بہادر کے کچھ لوگ جن میں علیم خان گروپ بھی تھا جب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل گیا، تو اختر خلیل گروپ ٹی ٹی پی سے چلا گیا اور یہ ان کے آپس کے اختلافات تھے۔‘
رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا: ’پچھلے سال نومبر میں بھی اسی قسم کا ایک آپریشن کیا گیا ہے اور شدت پسندی میں کمی آئی تھی، لیکن اب ٹی ٹی پی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد شدت پسندی میں دوبارہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔‘
مقامی صحافی زبیر مروت کے مطابق علاقے میں تعلیم کی کمی بھی شدت پسندی کی ایک وجہ ہے کیونکہ ان کے مطابق زیادہ تر شدت گروپوں میں شامل افراد مقامی ہی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’تعلیم کے مواقع کم ہوں تو نوجوان اس قسم کی شدت پسند سرگرمیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘