’خطرناک سیاح‘ سمیت تین برطانوی شہری افغان طالبان کی حراست میں

برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’ہم افغانستان میں زیر حراست برطانوی شہریوں کے ساتھ قونصلر رابطہ قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش اور ان کے اہل خانہ کی مدد کر رہے ہیں۔‘

مائیلز روٹلیج کو اگست 2021 میں برطانوی مسلح افواج نے افغانستان سے نکالا تھا، لیکن حال ہی میں انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا (تصویر: مائیلز روٹلیج ٹوئٹر اکاؤنٹ)

برطانیہ کے غیر منافع بخش گروپ پریزیڈیم نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ طالبان نے افغانستان میں تین برطانوی شہریوں کو حراست میں لے لیا ہے۔

اس گروپ نے ٹوئٹر پر کہا کہ وہ ’ان میں سے دو کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔‘

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’ہم افغانستان میں زیر حراست برطانوی شہریوں کے ساتھ قونصلر رابطہ قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش اور ان کے اہل خانہ کی مدد کر رہے ہیں۔‘

پریزیڈیم نیٹ ورک کے بانی سکاٹ رچرڈز نے سکائی نیوز کو بتایا: ’ہمیں یقین ہے کہ وہ تندرست ہیں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔

’ ہمارے پاس ان پر تشدد جیسے کسی منفی سلوک پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ اتنی ہی اچھی حالت میں ہیں جتنا ایسے حالات میں توقع کی جا سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکام اور پریزیڈیم جن دو افراد کی مدد کر رہا ہے ان کے درمیان ’کوئی رابطہ‘ نہیں ہوا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں افراد جنوری سے طالبان کی حراست میں ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ تیسرے شخص کو کتنے عرصے تک حراست میں رکھا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں ان افراد میں 53 سالہ ڈاکٹر کیون کارن ویل، ایک ہوٹل کے منیجر اور یوٹیوب سٹار مائیلز روٹلیج ہیں۔

سکائی نیوز کی رپورٹس کے مطابق مائیلز روٹلیج ’خطرناک سیاح‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنہیں اس سے قبل اگست 2021 میں برطانوی مسلح افواج نے افغانستان سے نکالا تھا، لیکن حال ہی میں انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔

رواں برس فروری میں انہوں نے ٹویٹ کیا کہ اگر انہیں کبھی بھی ’نو فلائی لسٹ‘ میں رکھا گیا تو وہ ’اوبر کے ذریعے افغانستان‘ چلے جائیں گے۔

ایک اور برطانوی شہری کی شناخت ڈاکٹر کیون کارن ویل کے طور پر ہوئی ہے جبکہ تیسرے برطانوی شہری کا نام نہیں بتایا گیا لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ کابل میں ایک ہوٹل کا انتظام سنبھالتے تھے۔

53 سالہ کارن ویل کو جنوری میں طالبان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) کے افسران نے ان کے ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر غیر قانونی آتشیں اسلحہ رکھنے کا الزام ہے، تاہم ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا اسلحہ لائسنس یافتہ تھا۔

2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بحفاظت دبئی بھیجا گیا تھا۔

پریزیڈیم نے بذریعہ ٹوئٹر طالبان پر زور دیا کہ جسے ’ہم غلط فہمی سمجھتے ہیں اس پر غور کریں اور ان افراد کو رہا کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال طالبان نے ایک ٹی وی کیمرہ مین اور چار دیگر برطانوی شہریوں کو رہا کیا تھا، جو چھ ماہ سے حراست میں تھے۔

پیٹر جووینل ان ’متعدد‘ برطانوی شہریوں میں سے ایک تھے، جن کے بارے میں لندن کی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کی حراست میں تھے۔

برطانوی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان پانچوں ’کا افغانستان میں برطانوی حکومت کے کام میں کوئی کردار نہیں تھا اور انہوں نے برطانوی حکومت کے سفری مشورے کے خلاف افغانستان کا سفر کیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ ایک غلطی تھی۔‘

اس وقت افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی شہریوں پر الزام عائد کیا تھا کہ ’وہ ملک کے قوانین اور افغان عوام کی روایات کے خلاف سرگرمیاں کر رہے ہیں۔‘

ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا تھا: ’امارت اسلامیہ افغانستان اور برطانیہ کے درمیان مسلسل ملاقاتوں کے بعد ان افراد کو رہا کر دیا گیا اور انہیں ان کے ملک کے حوالے کر دیا گیا۔‘

مزید کہا گیا تھا: ’انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کے قوانین، اس کی روایات اور لوگوں کی ثقافت کی پاسداری کریں گے اور دوبارہ ان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔‘

افغان طالبان اگست 2021 میں اقتدار میں واپس آئے تھے اور اس کے بعد سے انہوں نے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں سے عالمی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا