برطانیہ کی افغانوں کو دستاویزات طالبان سے منظور کروانے پر معذرت

دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام نے افغان درخواست دہندگان سے کہا ہے کہ پیدائش اور شادی کے سرٹیفکیٹ انگریزی میں فراہم کیے جائیں اور ان پر افغان حکومت کے محکموں کی مہریں بھی ہوں، جو طالبان کے زیر انتظام ہیں۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان شہریوں کے انخلا کے مناظر (اے ایف پی)

اس بات کا علم ہوا ہے کہ طالبان کے خوف سے فرار کی راہیں تلاش کرتے افغانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ برطانیہ میں صرف اسی صورت میں پناہ لے سکتے ہیں جب ان کی دستاویزات افغان طالبان کی جانب سے منظور شدہ ہوں۔

دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام نے جنگ کے دوران برطانوی افواج کی مدد کرنے والوں کے لیے افغانوں کی منتقلی اور معاونت کی پالیسی سکیم (اراپ) کے درخواست دہندگان سے کہا ہے کہ پیدائش اور شادی کے سرٹیفکیٹ انگریزی میں فراہم کیے جائیں اور ان پر افغان حکومت کے محکموں کی مہریں بھی ہوں، جو کہ اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کے زیر انتظام ہیں۔

فلاحی اداروں کا کہنا ہے کہ افغانوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے جبکہ ایک رکن پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ افغانوں سے ’اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط‘ کرنے کو کہا گیا ہے۔ ہزاروں افغان اب بھی یہ سننے کے منتظر ہیں کہ آیا وہ اس سکیم کے تحت برطانیہ منتقل ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

برطانوی وزارت دفاع (ایم او ڈی) نے ابتدائی طور پر اس بات کی تردید کی تھی لیکن اب اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ غلط تھا اور دی انڈپینڈنٹ کی تحقیقات کے بعد معافی مانگی ہے۔

ایک رکن پارلیمنٹ نے برطانوی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ افغانوں کو درپیش تلخ حقائق کو ’مکمل طور پر نظر انداز‘ کر رہی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ نے اراپ  کے درخواست دہندگان کو بھیجی گئی متعدد ای میلز دیکھی ہیں، جن میں وزارت دفاع کے کیس ورکرز نے پیدائش کے سرٹیفکیٹ اور شادی کے سرٹیفکیٹ انگریزی میں فراہم کرنے درخواست کی، جن پر (افغان) حکومت کی مہریں لگی ہوئی ہوں۔

ایک کیس میں، ایک افغان مترجم سے کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور اپنی شادی کے سرٹیفکیٹ کی افغان وزارت خارجہ سے تصدیق کروائیں۔

بالآخر وہ اپنی شادی کا سرٹیفکیٹ تصدیق کے لیے طالبان کی وزارت انصاف کے پاس لے گئے۔ وہ اس وقت افغانستان میں روپوش ہیں، کام نہیں کر سکتے اور اب بھی کسی تیسرے ملک اور پھر وہاں سے برطانیہ منتقل ہونے کے لیے مدد کے منتظر ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے یہ معاملہ اٹھائے جانے کے بعد درخواست دہندگان کو بھیجی گئی ایک ای میل میں اراپ کی کیس ٹیم نے لکھا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ آپ میں سے کچھ کو اراپ کی جانب سے پیغامات موصول ہوئے ہوں گے، جن میں کہا گیا تھا کہ آپ برطانیہ منتقلی کے لیے نئی دستاویزات حاصل کرنے کی غرض سے مقامی حکام یا وزارت خارجہ کے پاس جائیں۔

’اگر آپ کو ان میں سے کوئی پیغام موصول ہوا ہے تو یہ غلط تھا اور ہم اس پیغام کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسی بھی غلط فہمی یا پریشانی کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب چند دن قبل رشی سونک نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت اراپ سکیم کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو ’انتہائی سنجیدگی‘ سے لیتی ہے۔

طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں ’جان لیوا خطرے‘ کا سامنا کرنے والی خواتین ججوں کی حالت زار کے بارے میں وزیراعظم سے یہ سوالات کیے گئے تھے۔

اس کے جواب میں رشی سونک نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ برطانیہ افغانوں کی منتقلی اور معاونت کی پالیسی (اراپ) اور افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری سکیم کے تحت ان لوگوں کی حد تک اپنی ذمہ داریوں کو انتہائی سنجیدگی سے لیتا ہے جنہوں نے افغانستان میں اس کی مدد کی اور خدمات انجام دیں۔‘

وزارت دفاع کے اندازوں کے مطابق، اراپ سکیم کے تحت برطانیہ میں تقریباً چار ہزار 600 افراد پناہ کے اہل ہیں، جن میں زیر کفالت خاندان کے ارکان بھی شامل ہیں، جنہیں ابھی تک برطانیہ منتقل نہیں کیا گیا ہے۔

افغان امیدواروں کی حمایت کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ دستاویزات کے لیے وزارت دفاع کی درخواستیں گذشتہ تین ماہ کے دوران مزید سخت ہو گئی ہیں۔

اگست 2021 میں طالبان کے آنے کے بعد برطانیہ کے فوجی آپریشن ’پٹنگ‘ کے تحت جن افراد کا انخلا کیا گیا تھا، ان سے کہا گیا تھا کہ ’اگر آپ کے پاس دستاویزات ہیں‘ تو لے آئیں، لیکن حال ہی میں ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے والے افراد کو وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ دستاویزات ضروری ہیں۔

شادی کے سرٹیفکیٹ کابل میں خاندانی معاملات دیکھنے والی عدالتوں کی جانب سے مقامی زبانوں میں جاری کیے جاتے ہیں۔ اس عمل سے واقف ذرائع کے مطابق اس کے بعد ان کا ترجمہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد اصل اور ترجمہ شدہ سرٹیفکیٹ دونوں کو تصدیق کے لیے وزارت خارجہ کے پاس لے جانا پڑتا ہے۔

افغان مترجمین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم صلح الائنس کی شریک بانی اور یونیورسٹی آف یارک کی لیکچرر ڈاکٹر سارہ ڈی جونگ کا کہنا ہے کہ برطانوی بیوروکریٹس اکثر یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ افغانستان میں کون سی دستاویزات مل سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں شادی کے سرٹیفکیٹ انگریزی میں آسانی سے میسر نہیں اور طالبان نے بچوں کے پاسپورٹ جاری کرنا ’کافی حد تک روک‘ دیے ہیں، جس کی وجہ سے اراپ کے تحت اہل درخواست دہندگان افغانستان میں پھنس گئے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے دستاویزات نہیں ہیں۔

 دیگر افراد بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، مبینہ طور پر جعلی پاسپورٹ بلیک مارکیٹ میں تین ہزار ڈالر (2،460 پاؤنڈ) میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔

صلح الائنس نے حال ہی میں ایک کیس میں مدد کی جس میں، ایک درخواست گزار کو کسی بچے کو گود لینے کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کے لیے کہا گیا تھا، جو افغان معاشرے میں دستیاب نہیں ہے۔

بین الاقوامی این جی او گلوبل ویٹنس سے تعلق رکھنے والی سارہ فینبی کا کہنا تھا: ’یہ حقیقت شرمناک ہے کہ افغان مترجمین جنہوں نے افغانستان میں برطانیہ کے مشن کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا تھا، اراپ کے تحت اہلیت رکھنے کے باوجود اب بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ چھپے ہوئے ہیں، ڈرے ہوئے ہیں اور اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کام کرنے سے قاصر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اراپ کی جانب سے ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی دستاویزات طالبان کے زیر کنٹرول وزارتوں میں لے جائیں تاکہ ان کی تصدیق کی جا سکے۔‘

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے سابق فوجی ڈین جاروس کا کہنا تھا: ’ہمارے افغان اتحادیوں سے یہ کہنا کہ اپنے کاغذات طالبان کی وزارت خارجہ سے منظور کروائیں، ایسا ہی ہے جیسے ان سے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے کے لیے کہا جائے۔

’برطانوی حکومت کی جانب سے کی جانے والی یہ درخواستیں ان سنگین حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں، جن کا اہل افغانوں کو سامنا ہے، جس کی وجہ سے مایوس افراد کو خطرناک حالات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔‘

لیبر پارٹی کے شیڈو سیکریٹری دفاع جان ہیلی ایم پی نے کہا کہ وزرا کو چاہیے کہ ’درخواست کے عمل کو ایسا نہ بنائیں جس سے ان کی جان کو ممکنہ خطرہ ہو۔ وزرا کو فوری طور پر اراپ سکیم کو ٹھیک کرنے اور درخواستوں اور منتقلی میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔‘

دفاعی سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ٹوبیاس ایل ووڈ نے متنبہ کیا کہ برطانوی حکومت کی جانب سے اضافی نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جو لوگ اس کے لیے کام کرتے ہیں انہیں نقصان نہ پہنچے۔ ہمیں صحیح کام کرنا چاہیے۔‘

برطانیہ کو ان الزامات کا سامنا ہے کہ 2021 کے موسم گرما میں (طالبان کے آنے کے بعد) افغانستان کی صورت حال پر اس کا ردعمل ناکافی تھا۔

قبل ازیں اس سال جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے انسانی بحران کے جواب میں نہ تو ’تیزی سے اور نہ ہی واضح مقصد کے ساتھ‘ کام کیا۔

سقوط کابل کے بعد سے وزرا پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اراپ سکیم میں تاخیر سمیت درپیش کئی مسائل کی وجہ سے افغان پناہ گزینوں کو ناکام کر رہے ہیں۔

اراپ ان افغان شہریوں کے لیے ہے جنہوں نے برطانوی حکومت اور مسلح افواج کے ساتھ کام کیا ہے اور جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ منتقلی کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

ایک سرکاری ویب سائٹ کے مطابق وزارت دفاع اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ آیا لوگ اس سکیم کے اہل ہیں یا نہیں، اور ہوم آفس اس بات کی جانچ کرتا ہے کہ آیا وہ ’منتقلی کے لیے موزوں‘ ہیں یا نہیں۔

یہ افغان شہریوں کی دوبارہ آبادکاری سکیم (اے سی آر ایس) سے الگ ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ ’افغان سول سوسائٹی کے ارکان جنہوں نے افغانستان میں برطانیہ اور بین الاقوامی برادری کی کوششوں کی معاونت کی اور کمزور افراد، بشمول خواتین اور اقلیتی گروپوں کے افراد جو خطرے میں ہیں‘ کو ترجیح دی جائے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ہزار 200 سے زیادہ افراد اراپ کے تحت برطانیہ گئے، لیکن 2021 کے بعد ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

جولائی سے ستمبر 2021 کے درمیان چھ ہزار200 سے زائد درخواستیں منظور کی گئیں جبکہ 2022 کی آخری سہ ماہی میں صرف 743 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

اے سی آر ایس سکیم کے تحت بیرون ملک سے صرف 22 افغانوں کو آباد کیا گیا ہے، جسے حکومت نے ان ہزاروں افراد کے لیے استعمال کیا جنہیں پہلے ہی برطانیہ منتقل کیا جا چکا تھا۔

وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا کہ انہوں نے غلطی کو فوری طور پر درست کر لیا ہے اور وہ ’فوری طور پر اپنی داخلی رہنمائی اور عمل کو تقویت دے رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم غیر مشروط طور پر معافی مانگتے ہیں اور اہل افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے انتھک محنت جاری رکھیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا