’خواتین پر ظلم‘: عالمی عدالت سے سینیئر افغان طالبان رہنماؤں کی گرفتاری کا مطالبہ

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے مطابق طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخونزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے خلاف ’صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم کرکے انسانیت کے خلاف جرم کی مجرمانہ ذمہ داری قبول کرنے‘ کی معقول بنیادیں موجود ہیں۔

افغان طالبان کی جانب سے 25 مئی 2016 کو جاری کی گئی نامعلوم مقام پر لی گئی اس تصویر میں افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو دیکھا جا سکتا ہے (افغان طالبان / اے ایف پی)

بین الاقوامی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) یعنی آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے جمعرات کو کہا کہ وہ افغانستان میں خواتین پر ظلم و ستم کے الزام میں سینیئر طالبان رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کریم خان نے کہا کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخونزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے خلاف ’صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم کرکے انسانیت کے خلاف جرم کی مجرمانہ ذمہ داری قبول کرنے‘ کی معقول بنیادیں موجود ہیں۔

آئی سی سی چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کو ’طالبان کی طرف سے غیر معمولی، غیر انسانی اور مسلسل ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے اقدام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے موجودہ صورت حال قابل قبول نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی سی سی کے جج اب کریم خان کی درخواست پر غور کریں گے کہ آیا گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا جائے یا نہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس میں ہفتوں یا مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔

دی ہیگ میں قائم یہ عدالت دنیا کے بدترین جرائم جیسے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر فیصلہ سنانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس کی اپنی کوئی پولیس فورس نہیں ہے اور وہ اپنے گرفتاری کے وارنٹوں پر عمل درآمد کے لیے اپنے 125 رکن ممالک پر انحصار کرتی ہے۔

اصولی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد مطلوبہ شخص حراست میں لیے جانے کے خوف سے رکن ممالک کا سفر نہیں کر سکتا۔

کریم خان نے خبردار کیا کہ وہ جلد ہی دیگر طالبان عہدیداروں کے لیے بھی اضافی درخواستیں طلب کریں گے۔

جنوبی افغانستان میں اپنے مضبوط گڑھ میں الگ تھلگ رہنے والے ملا ہبت اللہ اخونزادہ نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں اپنے پیشرو کی موت کے بعد مئی 2016 میں طالبان کی قیادت سنبھالی تھی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 60 یا 70 کی دہائی میں ہیں۔ وہ صوبہ قندھار میں مقیم ہیں اور اقتدار سنبھالنے کے بعد سے محض چند بار ہی منظر عام پر آئے ہیں۔ زیادہ تر ان کے حکم نامے ہی سامنے آتے ہیں۔

دوسری جانب چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی، طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی ہیں اور انہوں نے 2020 میں امریکی نمائندوں سے بات چیت میں طالبان کی جانب سے مذاکرات کار کے طور پر کام کیا تھا۔

آئی سی سی پراسیکیوٹر کریم خان کے مطابق افغانستان میں انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم کا بھی ارتکاب کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’طالبان کے خلاف سمجھی جانے والی مزاحمت یا مخالفت کو قتل، قید، تشدد، ریپ اور جنسی تشدد کی دیگر اقسام، جبری گمشدگی اور دیگر غیر انسانی کارروائیوں سمیت جرائم کے کمیشن کے ذریعے وحشیانہ طور پر دبایا گیا۔‘

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ آئی سی سی پراسیکیوٹر کے اقدامات سے طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی سے باہر رکھنے کے معاملے کو عالمی برادری کے ایجنڈے پر واپس لانا چاہیے۔

ایچ آر ڈبلیو کی بین الاقوامی انصاف کی ڈائریکٹر لِز ایونسن نے کہا: ’طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے تین سال بعد، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزیوں میں بغیر کسی استثنیٰ کے تیزی آ گئی ہے۔‘

اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، طالبان حکام نے اپنے پہلے دور (2001-1996) کے مقابلے میں کم سختیوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے فوری طور پر خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔

طالبان کی حکومت نے پہلے 18 مہینوں میں لڑکیوں کو سیکنڈری سکول اور خواتین کو یونیورسٹی جانے سے روک دیا، جس سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا، جس نے ایسی پابندیاں عائد کیں۔

حکام نے غیر سرکاری گروپوں اور دیگر ملازمتوں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس سے ہزاروں خواتین سرکاری ملازمتوں سے محروم ہو گئی ہیں۔

بیوٹی سیلون بند کر دیے گئے ہیں اور خواتین کو عوامی پارکوں اور جمز میں جانے کے ساتھ ساتھ مرد محرم کے بغیر طویل فاصلے تک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

گذشتہ موسم گرما میں اعلان کیے گئے ایک قانون کے تحت خواتین کو حکم دیا گیا کہ وہ عوامی سطح پر شاعری نہ کریں اور  اپنی آوازوں اور جسموں کو گھر سے باہر ’چھپا کر‘ رکھیں۔

چند باقی رہ جانے والی خواتین ٹی وی میزبان ملا ہبت اللہ اخونزادہ کے 2022 کے حکم کے مطابق سر پر سکارف اور چہرے پر ماسک پہنتی ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور عالمی برادری نے ان پابندیوں کی مذمت کی ہے اور ان ہی پابندیوں کی وجہ سے طالبان کو کسی ملک کی جانب سے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب طالبان حکام نے اپنی پالیسیوں پر بین الاقوامی تنقید کو مستقل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو اسلامی قانون کے تحت تمام حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا