نیب کراچی کا بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کی شکایات جمع کرنے کا اعلان

خواجہ آصف کی اخباری کانفرنس اور نیب کے اس اعلان سے لگتا ہے کہ حکومت بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کا ارادہ کرچکی ہے۔

نیب نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کا آغاز کراچی سے کیا ہے۔ نیب کے اسلام آباد میں صدر دفتر کا بیرونی منظر (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے متاثرہ عوام سے نیب کے پاس شکایات جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

قومی اخبارات میں ہفتے کو شائع کیے جانے والے نیب کراچی نے ایک اشتہار میں لوگوں سے ڈاک کے ذریعے یہ شکایات ارسال کرنے کو کہا ہے۔ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ نیب کراچی بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ اور دیگر کے خلاف عوام کو دھوکہ دہی کی تحقیقات کر رہی ہے۔

اعلان میں کہا گیا کہ ’اگر آپ فراڈ / چیٹنگ سے متاثر ہیں تو آپ سے درخواست ہے کہ اپنی شکایات / دعوے ڈاک، ای میل یا پھر ویب سائٹ پر فارم کے ذریعے نیب کراچی کو اس اشتہار کی اشاعت کے 30 روز کے اندر بھیجیں۔‘

یہ کارروائی ایک روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں کے بعد شروع ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔‘

نیب نے اشتہار میں متاثرین کو ہدایات دیتے ہوئے ان سے کہا ہے کہ وہ اپنی طرح کے دیگر متاثرین کو بھی ان تحقیقات سے آگاہ کریں تاکہ ’آپ کا موقف/مقدمہ مضبوط ہو۔‘ ان کی سہولت کے لیے نیب افسر حماد کمال کا نام، عہدہ اور رابطے کے نمبر بھی دیئے گئے ہیں۔ اس اعلان کے 30 روز بعد موصول ہونے والی شکایات پر نیب نے کارروائی نہ کرنے کا بھی کہا ہے۔

خواجہ آصف کی اخباری کانفرنس اور نیب کے اس اعلان سے لگتا ہے کہ حکومت بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کا ارادہ کرچکی ہے۔ تاہم نیب کراچی کے اس تازہ اقدام پر بحریہ ٹاؤن کا ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خواجہ آصف کا کہنا تھا: ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ قانون سے بالاتر (اَن ٹچ ایبل) ہے تو وہ وقت چلا گیا، اب ریاست ان پر ہاتھ ڈالے گی۔ ان کے جتنے بھی کاروبار ہیں پاکستان کے اندر، اس میں حکومتی سطح پر ان کو ملک واپس لانے پر بھی کام کیا جائے گا، ہمارا متحدہ عرب امارات کے ساتھ ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ ہے۔‘

اس سے قبل 21 جنوری کو قومی احتساب بیورو کی جانب سے ملک ریاض کے حوالے سے دھوکا دہی، فراڈ، سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضے کے معاملات پر تحقیقات اور عوام کو بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری سے تنبیہ کا بیان بھی سامنے آیا تھا۔

اس کے اگلے روز ملک ریاض نے ایکس پر اپنے ردعمل میں 190 ملین پاؤنڈز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا۔ میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے۔ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔‘

نیب کی پریس ریلیز کو ’بلیک میلنگ‘ قرار دیتے ہوئے ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا، نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے۔ میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔‘

بحریہ ٹاؤن کراچی گذشتہ کئی سالوں سے مختلف حلقوں کی جانب سے تحقیقات کا نشانہ بن چکی ہے۔ 2020 کے اواخر میں بھی 40 افراد نے ایک مشترکہ شکایت درج کروائی تھی جس پر سال 2023کی اگست میں میں کئی لوگوں کو احتساب بیورو کی جانب سے ای میل یا ڈاک کے ذریعے 'کال اپ نوٹس' موصول ہوئے تھے۔ نیب 13 ستمبر کو کراچی میں نیب کے کمپلینٹ ویریفکیشن سیل کا ذاتی طور پر دورہ کرنے کا کہا تھا۔

اس کے بعد کئی دیگر افراد اپنی شکایات جمع کروا چکے ہیں۔ شکایات تقریبا ایک جیسی تھیں جن میں الزام لگایا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ نے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجھی لے لی اور انہیں وہ جائیدادیں نہیں دیں جن کے لیے انہوں نے ادائیگی کی تھی۔

بحریہ ٹاؤن کراچی بڑے بحریہ ٹاؤن گروپ کا حصہ ہے، جس کی بنیاد 1990 کی دہائی کے آخر میں ملک ریاض حسین نے رکھی تھی۔

گروپ نے ابتدائی طور پر راولپنڈی اور لاہور میں منصوبوں کے ساتھ اپنی شناخت بنائی اور پھر پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی تک توسیع کی۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کیس ایک اہم قانونی معاملہ ہے جو قومی احتساب بیورو اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے درمیان چل رہا ہے۔ اس کیس میں مختلف الزامات شامل ہیں، جن میں زمین کی غیر قانونی قبضہ، مالی بے ضابطگیاں اور اثر و رسوخ کا غلط استعمال شامل ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا تاکہ وہ کراچی کے ملیر ضلع میں زمین کے قبضے کو قانونی بنا سکے۔ اس کے علاوہ، ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مختلف مقدمات درج ہیں، جن میں زمین کی غیر قانونی خریداری اور عوام کو دھوکہ دینے کے الزامات شامل ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ تازہ اقدامات کے نتائج ملک کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ اور قانونی نظام پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست