اسرائیلی فوج نے اتوار کو اعلان کیا کہ اس نے شام کے ایک مخصوص علاقے پر حملہ کیا جہاں سے ایک رات پہلے گولان کی پہاڑیوں پر راکٹ حملے کیے گئے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی فوج نے ایک مختصر بیان میں کہا کہ ’یہ حملہ اسرائیلی علاقے کی طرف داغے گئے راکٹوں کے جواب میں کیا گیا۔‘
اسرائیلی فوج کا مزید کہنا تھا کہ اس نے اس طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون کا بھی استعمال کیا تھا جس سے راکٹ فائر کیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر شام سے چھ راکٹ چلائے گئے، جن میں سے کچھ اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں پر گرے۔
اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ کئی علاقوں میں انتباہی سائرن بجنے لگے۔
اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں گولان کی پہاڑیوں کا 1200 مربع کلومیٹر (460 مربع میل) کا علاقہ شام سے چھین کر اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد میں اس علاقے کو اسرائیل میں ضم کر لیا گیا۔ عالمی برادری نے اس کارروائی کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لبنان میں قائم المیادین ٹی وی نے اتوار کو علی الصبح بتایا کہ القدس بریگیڈ گروپ نے ہفتے کے روز گولان کی پہاڑیوں پر راکٹ فائر کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
اسرائیل کی طرف داغے گئے چھ راکٹوں میں سے کسی بھی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اسرائیل نے کہا کہ اس نے شام میں راکٹ لانچروں کے خلاف توپ خانے کا استعمال کیا اور ڈرون حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ صرف تین راکٹ اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے میں آئے۔ دو کھلے میدان میں گرے اور تیسرے کو فضائی دفاعی نظام نے روک دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب شام کی وزات دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر ایک پیغام میں کہا کہ شام کے فضائی دفاعی نظام نے جنوب میں اسرائیلی میزائل حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے چند کو روک لیا۔
تازہ حملے مقدس مہینے رمضان کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ پر اس ہفتے اسرائیلی دھاوے کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ماحول میں ہوئے۔
بدھ کو اسرائیلی پولیس نے صبح ہونے سے پہلے ایک چھاپے میں مسجد اقصیٰ کے نماز پڑھنے کے ہال پر دھاوا بول دیا تھا۔ اسرائیلی پولیس نے الزام عائد کیا کہ ’قانون توڑنے والے‘ افراد نے مسجد میں مورچہ بندی کر رکھی تھی۔
بیت المقدس کی یہ پہاڑی، جس پر مسجد اقصیٰ اور اس سے متصل دیوار گِریہ واقع ہے، یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس ہے اور اس پر متضاد دعوے پہلے بھی تشدد کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جس میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 11 روزہ خونریز جنگ بھی شامل ہے۔
اس واقعے کے بعد جمعرات کو لبنان کے علاقے سے اسرائیل پر 30 سے زائد راکٹ فائر کیے گئے، جس کا الزام اسرائیلی فوج نے فلسطینی گروپوں پر عائد کیا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ اور جنوبی لبنان میں حملے کرکے جوابی کارروائی کی۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ لبنان سے 34 راکٹ داغے گئے جن میں سے 25 کو فضائی دفاعی نظام نے روکا۔ یہ 2006 کے بعد سے لبنان کی جانب سے اسرائیل پر کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔