انڈیا کی ’سب سے بڑی مسجد‘ جو 100 سال میں مکمل ہوئی

لاہور کی شاہی مسجد سے بھی بڑی بھوپال کی تاج المساجد جس کا بانی کوئی مرد نواب نہیں بلکہ تیسری خاتون حکمراں نواب شاہجہاں بیگم تھیں۔

 مسجد کی تعمیر کا کام 1887 میں شروع ہوا تھا (Eeshan Sharma - CC BY-SA 3.0) 

انڈیا میں کسی سے بھی پوچھیے کہ ملک کی سب سے بڑی مسجد کون سی ہے تو اکثر لوگ جامع مسجد دہلی کا نام لے لیں گے، لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی مسجد سابق نوابی ریاست بھوپال کی تاج المساجد ہے۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس مسجد کا بانی ریاست کا کوئی مرد نواب نہیں بلکہ تیسری خاتون حکمراں نواب شاہجہاں بیگم ہیں جنہیں اپنے مغل ہم نام شاہجہان کی طرح تعمیرات کا بے حد شوق تھا۔

بھوپال کی تاج المساجد دہلی کی مسجدِ جہاں نما (جو عُرفِ عام میں جامع مسجد دہلی کہلاتی ہے) سے لگ بھگ 28 فیصد یا ایک تہائی بڑی ہے۔ اس تین منزلہ مسجد کا اندرونی و بیرونی احاطہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ ایک وقت میں پونے دو لاکھ افراد با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ 

بعض کتابوں میں تو اسے برصغیر کی پرانی مساجد میں سب سے بڑی اور دنیا کی تیسری بڑی مسجد لکھا گیا ہے۔ یہ دعوے تو تحقیق طلب ہیں لیکن پیمائش کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے انڈیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

اس کی منفرد پہچان اور شاندار شکل و صورت کے علاوہ جو چیز اس مسجد کو خاص بناتی ہے وہ مسجد کی تعمیر کے پیچھے کی منفرد کہانی ہے۔ اس کی تکمیل میں ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے اور شکل و صورت میں جامع مسجد دہلی سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ 

نواب شاہجہاں بیگم نے 16 اکتوبر 1887 (بروز اتوار) کو تاج المساجد کی تعمیر شروع کروائی تھی۔ لیکن یہ مسجد ابھی نصف ہی بن پائی تھی کہ 1901 میں نواب موصوفہ کا انتقال ہو گیا۔ 

شاہجہاں بیگم کے انتقال کے بعد اور اس نوابی ریاست کے انڈیا میں انضمام تک نواب سلطان جہاں بیگم اور نواب حمید اللہ خان نے بھوپال کا انتظام و انصرام سنبھالا لیکن دونوں میں سے کسی نے بھی اس کی تکمیل کی طرف توجہ نہ دی۔ 

کم و بیش 70 سال بعد 1971 میں ایک مقامی عالم دین مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری نے مسجد کی تکمیل کی تحریک شروع کی اور مقامی و بین الاقوامی سطح پر جمع کیے جانے والے چندے سے باقی ماندہ کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ 

مسجدیں تعمیر کروانے کا شوق

بھوپال کی چوتھی اور آخری خاتون حکمراں سلطان جہاں بیگم اپنی والدہ نواب شاہجہاں بیگم کی سوانح عمری ’حیاتِ شاہجہانی‘ (سنہ اشاعت 1914) میں لکھتی ہیں: ’تعمیرات میں سرکارِ عالیہ (شاہجہاں بیگم) کا شوق اور حوصلہ ان کے ہم نام شاہجہاں شہنشاہ دہلی سے کچھ کم نہ تھا۔ انہوں نے اپنے زمانہ میں جس قدر عمارتیں بنائیں ان کی فہرست نہایت طولانی ہے۔

’اگرچہ قریباً تمام فرمان روایاں بھوپال نے مساجد تعمیر کروائیں لیکن سرکارِ عالیہ کی بنوائی ہوئی مسجدیں سب سے زیاد ہیں۔ ان مساجد میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان، وسیع اور بلند مسجد ہے اس کا نام تاج المساجد ہے۔ یہ مسجد بالکل جامع مسجد دہلی کے نمونہ پر ہے۔ اور اپنے بانی کے حوصلہ اور مذہبی عظمت کی مظہر ہے۔

’اس کی تعمیر کے لیے علاوہ بھوپال کے کاریگروں کے آگرہ، متھرا، جے پور وغیرہ کے کاریگر بھی مامور تھے۔ ان کی زندگی میں یہ مسجد مکمل نہیں ہونے پائی تھی اور ابھی تک بہت تعمیر باقی ہے۔ مگر انہیں کے زمانہ میں اس عمارت پر 15 (تا) 16 لاکھ روپیہ صرف ہو چکا تھا۔ اب تک اس کی تعمیر جاری ہے اور انشا اللہ تعالیٰ امید ہے کہ جلد یہ مقدس عمارت تکمیل کو پہنچے گی۔‘

محمد امین زبیری نے نواب سلطان جہاں بیگم کی سوانح عمری ’حیاتِ سلطانی‘ (سنہ اشاعت 1939)  میں لکھا ہے کہ شاہجہاں بیگم نے اپنے آخر عہد میں تاج المساجد کی تعمیر بڑے شوق اور بڑی ہمت سے شروع کرائی تھی اور اس کی تعمیر میں یہ امر مدنظر تھا کہ وہ کم از کم ہندوستان کی تمام مساجد سے وسیع اور زیادہ خوبصورت ہو۔ 

’اس کے لیے یورپ سے نہایت دبیز بلّور کے مصلّے بھی خاص طور پر بنوائے گئے تھے۔ مسجد کے شمالی و جنوبی سمتوں میں زنانہ حصے بھی رکھے گئے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس کو مکمل نہ کرا سکیں اور سلطان جہاں بیگم نے بھی اس کی تکمیل کی طرف توجہ نہ دی۔‘

نواب شاہجہاں بیگم کو مسجدیں تعمیر کروانے کا کتنا شوق تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 1889 میں لندن کے جنوب مغرب میں ووکنگ نامی جگہ پر (اورینٹل روڈ پر) شاہجہاں مسجد تعمیر کروائی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انگلستان میں مسلمانوں کی پہلی باضابطہ عبادت گاہ تھی۔ 

1925 میں شاہجہاں بیگم کی صاحبزادی نواب سلطان جہاں بیگم نے اس مسجد کا دورہ کیا جس کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

’نقوشِ بھوپال‘ (سنہ اشاعت 1996) شہر کی معروف ادیبہ اور سوانح نگار ڈاکٹر رضیہ حامد اور رفعت سلطان کی تدوین کردہ ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس میں قمر النسا قمر اپنے مضمون ’نواب شاہجہاں بیگم‘ میں رقمطراز ہیں: ’یہ اعزاز بھی نواب شاہجہاں بیگم کو ہی حاصل ہے کہ وہ برصغیر کی پہلی خاتون حکمراں ہیں جنہوں نے 1889 میں اپنے سفرِ برطانیہ کے دوران لندن میں مسلمانوں کے لیے پہلی (عبادت گاہ) شاہجہاں مسجد تعمیر کروائی۔‘

شاہجہاں بیگم کو تاج المساجد بنوانے کا خیال کیسے آیا؟

بھوپال سے تعلق رکھنے والے مورخ رضوان الدین انصاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاج المساجد کی تعمیر کا تعلق شاہجہاں بیگم کی جانب سے علاقہ شاہجہاں آباد بسانے اور اپنے محل ’تاج محل‘ کی تعمیر سے ہے۔ 

’شاہجہاں بیگم نے نواب بنتے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ شاہجہاں آباد کے نام سے ایک نئی بستی بسانا چاہتی ہیں اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔ اپنے لیے تاج محل کے نام سے ایک محل کی تعمیر شروع کروائی۔

’نوابین بھوپال میں یہ روایت بڑی عام تھی کہ جب کوئی نیا محل تعمیر کیا جاتا تو ساتھ ہی میں ایک مسجد بھی بنوائی جاتی۔ اسی روایت کے تحت شاہجہاں بیگم نے بھی تاج محل کی تعمیر کے بعد تاج المساجد کے نام سے ایک مسجد کی تعمیر کا کام شروع کروایا۔ 

 

’ان سے قبل شاہجہاں بیگم کی نانی قدسیہ بیگم صاحبہ نے اپنے محل کی تعمیر کے ساتھ جامع مسجد بنوائی تھی اور ان کی والدہ سکندر جہاں بیگم نے بھی موتی محل کے ساتھ موتی مسجد بنوائی تھی۔‘

مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری کے پوتے مولانا اطہر حبیب خان ندوی، جو تاج المساجد اور اس میں چلنے والے دارالعلوم کے منتظمین میں سے ایک ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جس جگہ پر یہ مسجد بنی ہے وہ اُس زمانے میں شہر کی عیدگاہ تھی۔ 

’شاہجہاں بیگم کے ہی عہد میں یہ عیدگاہ دوسری جگہ منتقل کر دی گئی تھی۔ جب عیدگاہ کی زمین، جو کہ کئی ایکڑ اراضی پر مشتمل تھی، خالی ہوئی تو شاہجہاں بیگم نے علما سے مشورہ کیا کہ کیا اس جگہ پر کوئی سرکاری عمارت یا محل کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔

’علما نے کہا کہ چونکہ پہلے یہاں ایک عیدگاہ تھی لہٰذا یہ زمین مسجد کے لیے موزوں ہے اور یہ جگہ محض عبادت کے لیے ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ فتویٰ سن کر شاہجہاں بیگم نے ایک عظیم مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ 

’چونکہ ریاست بھوپال کے سابق نوابوں نے بھی اپنے اپنے عہد میں مسجدیں تعمیر کروائی تھیں لہٰذا شاہجہاں بیگم نے اس جگہ پر سب سے بڑی مسجد تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کا نام تاج المساجد رکھا یعنی مساجد کا تاج۔ 

’اس سلسلے میں ریاست کے مدارالمہام، جو وزیراعظم ہوتا تھا، کے ذریعے ایک حکم نامہ جاری کروایا جس میں مسجد کا مکمل خاکہ موجود تھا۔ حکم نامے میں شاہجہاں بیگم کا اس بات پر خاص اصرار تھا کہ تاج المساجد کی کرسی ان کے محل (تاج محل) کے خواب گاہ سے بلند ہو۔ اس مسجد کی تعمیر تاج محل کی تعمیر اور اس میں شاہجہاں بیگم کی منتقلی کے فوراً بعد 1887 میں شروع کروائی گئی تھی۔‘

علما کا بلوریں پتھر کے استعمال پر اعتراض

کہا جاتا ہے کہ شاہجہاں بیگم نے تاج المساجد کے فرش کے لیے بیلجیئم (بعض کتابوں میں انگلینڈ لکھا ہے) سے سات لاکھ روپے مالیت کے بلوریں پتھر منگوائے تھے۔ لیکن جب علما نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ ان پتھروں پر نمازیوں کی شکل کا عکس دکھائی دے رہا ہے تو انہوں نے ان پتھروں کا استعمال رکوا دیا۔ 

مولانا اطہر حبیب خان ندوی کہتے ہیں: ’یہ بیلجیئم کا بلوریں پتھر تھا جو کہ کانچ جیسا تھا۔ بیلجیئم سے لاکھوں روپے مالیت کے پتھر منگوانے کا آرڈر دیا گیا تھا اور ان پتھروں کی ایک کھیپ بھوپال آ بھی چکی تھی۔ 

’جب علما نے اعتراض کیا تو شاہجہاں بیگم نے ان سے پوچھا کہ کیا اس پتھر کا مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جائز تو ہے لیکن افضل یہی ہے کہ یہ پتھر نصب نہ کرائے جائیں کیوں کہ ان میں عکس نظر آتا ہے۔ اس کے بعد شاہجہاں بیگم نے فرش کے لیے اس پتھر کی جگہ عام پتھر کا استعمال کرنے کا حکم دیا۔

’یہاں تاج المساجد کی لائبریری میں اس پتھر کا محض ایک مصلیٰ موجود ہے۔ جب شاہجہاں بیگم کے انتقال کے بعد مسجد کی تعمیر رک گئی تو اس زمانے میں وہ پتھر یا تو چوری ہوئے یا کسی گھپلے کی نذر ہو گئے نہیں معلوم۔‘

دارالعلوم تاج المساجد کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ جب بلور کے مصلّے (بلوریں پتھر) آئے جو چار چار ٹکڑوں پر مشتمل تھے اور ان کے نصب کیے جانے کا وقت آیا تو علما کو اس سے سخت اختلاف ہوا کہ اس میں صورت نظر آئے گی جس کے بعد شاہجہاں بیگم نے علما سے فتویٰ مانگا۔ 

’یہاں پھر ہم کو شاہجہاں بیگم کی کمالِ دینداری کی مثال ملتی ہے کہ انہوں نے صرف استحباب (وہ کام جس کے کرنے میں ثواب ہو لیکن نہ کرنے میں عذاب نہ ہو) کی خاطر باوجود بہت زیادہ خواہش کے ان مصلّوں کو نصب نہیں کیا۔‘

’برصغیر کی جامعہ الازہر‘ 

مورخین کا کہنا ہے کہ نواب شاہجہاں بیگم تاج المساجد کے احاطے میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع معروف جامعہ الازہر کے طرز پر دینی علوم اور مشرقی فنون کی ایک بڑی یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ رکھتی تھیں۔ 

رضوان الدین انصاری کہتے ہیں: ’شاہجہاں بیگم کا منصوبہ بڑا تھا۔ اس میں مسجد کے ساتھ مصر کی جامعہ الازہر جیسی ایک عظیم یونیورسٹی بنانا بھی شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی جگہ منتخب کی جو کئی ایکڑ اراضی پر محیط تھی۔‘

مولانا اطہر حبیب خان ندوی کا کہنا ہے کہ شاہجہاں بیگم کے ذہن میں اصل میں اس مسجد کا ایک الگ ہی نقشہ تھا۔ 

’وہ تاج المساجد کو اس طرح کی مسجد بنانا چاہتی تھیں جس طرح کی مسجدیں اسلامی دور میں بغداد اور دمشق (شام) میں ہوا کرتی تھیں جن میں نماز کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا بھی انتظام ہوتا تھا۔‘

کتاب ’وومنز آئی وومنز ہینڈ: میکنگ آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر ان ماڈرن انڈیا‘ میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کی ماہر پروفیسر باربرا ڈی میٹکلف نے لکھا ہے کہ تاج المساجد کی تعمیر کے لیے مسجدیں بنوانے والے ماہر مستری محمد روشن کو دلی سے بلوا کر کام پر رکھا گیا تھا جبکہ دو ٹھیکیداروں میں سے ایک رتھاجی کو کاٹھیاواڑ (مغربی انڈیا کا جزیرہ نما علاقہ) سے بلایا گیا تھا۔ 

بھوپال کے صحافی و مصنف عارف عزیز اپنی کتاب ’مساجدِ بھوپال‘ میں لکھتے ہیں کہ شاہجہاں بیگم نے اس مسجد کی تعمیر سنگِ سرخ سے شروع کروائی تھی اور 1901 تک، یعنی ان کے انتقال تک، ان پتھروں پر نقش نگاری اور سنگ تراشی کے صبر آزما کام میں ہزاروں کاریگر اور مزدور لگے رہے۔ 

کتاب ’نقوشِ بھوپال‘ کے مضمون بعنوان ’مسجدوں کا شہر بھوپال‘ میں اس کے مصنف محمد غضنفر علی خان تاج المساجد میں مزدوری کرنے والے ایک مزدور کی کہانی پیش کی ہے۔ 

وہ لکھتے ہیں: ’شاید 30 برس کی بات ہے کہ بیرسیہ تحصیل کے نواح میں ایک معمر صاحبِ فراش سے ملاقات کا اتفاق ہوا جنہوں نے بتایا کہ وہ آغازِ جوانی میں تاج المساجد میں مزدوری کرتے تھے۔ 

’فرش مسجد سے ایک تغاری (تگاری) مینارے کے زینے سے اوپر لے جانے کی اجرت ایک کوڑی نقد اوپر ہی مل جاتی تھی۔ اس طرح مزدور دن بھر جو کوڑیاں جمع کرتے شام کو ان کے ٹکے (پیسے) بنا لیتے تھے اور دن بھر کی مزدوری بمشکل چار سے چھ پیسے ہوتی۔‘

جب تاج المساجد کی تعمیر کا کام بند ہو گیا

تاریخ کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ 16 جون 1901 کو شاہجہاں بیگم کا 62 سال کی عمر میں انتقال ہوا تو تاج المساجد کی تعمیر کا کام بھی رکا اور ریاست بھوپال کے انڈیا میں انضمام تک رکا ہی رہا۔ 

تاہم مورخ رضوان الدین کہتے ہیں کہ 1901 کے اوائل میں جب یہ پتہ چلا کہ شاہجہاں بیگم منہ کے کینسر کا شکار ہو گئی ہیں تو انتظامی امور متاثر ہونے لگے اور نتیجتاً مسجد کی تعمیر کا کام بھی رک گیا۔ 

’شاہجہاں بیگم کے وزرا نے ان کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری خزانے کو لوٹنا شروع کیا اور کئی علاقوں پر قابض بھی ہو گئے جس کی وجہ سے سرکاری خزانہ خالی ہو گیا۔ نتیجتاً مسجد کی تعمیر کا کام بھی روکنا پڑا۔

’نواب موصوفہ کی وفات تک مسجد کی تعمیر رکی ہی رہی۔ جب ان کی بیٹی سلطان جہاں بیگم نواب بنیں تو اس وقت سرکاری خزانہ بالکل خالی ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے سب سے پہلے زیر تعمیر عمارتوں پر کام رکوایا جن میں تاج المساجد بھی شامل تھی۔ مسجد پر کام ان کے اور پھر نواب حمید اللہ خان کے دور میں بھی بحال نہ ہو سکا۔‘

تاہم کتاب ’نقوشِ بھوپال‘ میں منظور سروش اپنے مضمون ’بھوپال کے محلات، باغات اور مسجدیں‘ میں لکھتے ہیں: ’شاہجہاں بیگم کے انتقال کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام برائے نام ہی جاری رہا۔ 

’البتہ مسجد کا جنوبی دروازہ نواب سلطان جہاں بیگم کے عہد میں تکمیل ہوا۔ میں نے 1914 میں اس دروازے کی تعمیر کا کام آخری مراحل پر دیکھا ہے۔ اس کے بعد کام بالکل بند ہو گیا۔‘

جبکہ عارف عزیز ’مساجدِ بھوپال‘ میں لکھتے ہیں: ’مسجد کا ایک دروازہ شاجہاں بیگم کے نواسے اور والیِ ریاست نواب حمید اللہ خان نے بنوایا لیکن ان کی ہمت بھی جواب دے گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلطان جہاں بیگم نے مسجد کی تعمیر میں دلچسپی کیوں نہ لی؟

محمد امین زبیری نے سلطان جہاں بیگم کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ عموماً ہر شخص کو اس بات پر حیرت ہو جاتی ہے کہ کیوں سلطان جہاں نے اپنی والدہ ماجدہ کی اس یادگار یا خانہ خدا کو مکمل نہ کیا۔

’انہوں نے اس وجہ کو جہاں تک ہمارا خیال ہے تقریراً و تحریراً کہیں ظاہر نہیں کیا لیکن جن اشخاص نے حضور ممدوحہ کی طبیعت و عادت کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اخراجات بلحاظ ضرورت حضور ممدوحہ کا اصول رہا ہے۔ 

’اول تو مسجد کا موقع ایسا ہے کہ جس کے آس پاس نہ کوئی آبادی ہے اور نہ آبادی کا امکان ہے اور کچھ دور جہاں آبادی ہے وہاں متعدد مساجد پہلے سے موجود ہیں۔ اب اگر اس کی تکمیل میں لاکھوں روپیہ صرف کر دیا جاتا تو بجز اس کے کچھ مدعا نہ ہوتا کہ بہت سی ضروری عمارتیں اور بہت سے ضروری کام ملتوی کرنے پڑتے۔ 

’ایک شاندار عمارت تیار ہو جاتی مگر محل و قوع اور بھوپال میں مساجد کی تعداد کو دیکھتے ہوئے جس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ یا یہ کہ حکماً دوسری مساجد کو ویران کر کے اس مسجد کو آباد کیا جاتا جو پھر بھی آباد نہ ہوتی۔ 

’اگر جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جامع قرار دے دی جاتی تو بھی ممکن نہ تھا کہ دور دراز فاصلہ سے جمعہ کے لیے مسلمان یہاں آتے اور اگر یہاں آتے تو شہر کی جامع مسجد ویران ہو جاتی جس کو وسطِ شہر اور وسطِ بازار میں نواب قدسیہ بیگم نے 1856 میں تعمیر کروایا ہے اور جو ہر وقت آباد رہتی ہے۔ تعمیر مساجد کا مسئلہ دراصل نہایت نازک ہے۔ بظاہر تو ایک مسجد کا بنانا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن اگر موقع اور ضرورت کا لحاظ نہ ہو تو یقیناً اس سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔‘

مولانا اطہر حبیب خان ندوی کے مطابق اکثر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ سرکاری خزانہ خالی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے سلطان جہاں بیگم تاج المساجد کا کام آگے نہ بڑھا سکی تھیں۔

’لیکن دوسرے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر نواب کی ترجیحات اور شوق الگ الگ تھے۔ مثلاً شاہجہاں بیگم کو عمارت سازی کا شوق تھا اور انہوں نے کئی عمارتیں بنوائیں۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبے سلطان جہاں بیگم کی ترجیحات میں شامل تھے اور دونوں میں انہوں نے کافی کام بھی کروایا جس کی مثال حمیدیہ ہسپتال، حمیدیہ گرلس کالج و سکول، حمیدیہ بوائز سکول وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے شوق اور ترجیحات کے مطابق ہی سرکاری خزانے کا استعمال کیا۔ 

’اُس دور کے شاہی فرمانوں میں کہا گیا تھا کہ فی الحال تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنوانا زیادہ ضروری ہے اور جب فنڈ دستیاب ہو جائیں گے تو مسجد کا کام بھی مکمل کیا جائے گا۔ لیکن مسجد کی تعمیر نہ تو سلطان جہاں بیگم کے عہد میں شروع آگے بڑھی اور نہ نواب حمید اللہ خان کے عہد میں۔‘

ایک عالم جنہوں نے مسجد کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا

1971 میں، یعنی کام رک جانے کے کم و بیش 70 سال بعد، بھوپال سے ہی تعلق رکھنے والے ایک عالمِ دین مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری نے عوامی چندے سے تاج المساجد کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لے کر اسے تکمیل تک پہنچایا۔ 

وہ اس زمانے میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں مہتمم کے عہدے پر فائز تھے اور 1950 میں اس لاوارث مسجد میں تاج المساجد کے نام سے ایک دارالعلوم شروع کروائی تھی۔ 

محمد غضنفر علی خان ’نقوشِ بھوپال‘ میں لکھتے ہیں: ’ریاستی (نوابی) دور میں یہاں علم دین کا ایک بہت معروف مدرسہ احمدیہ قائم تھا جس میں بیرون جات سے بھی طلبہ آتے تھے۔

’ریاست کے انڈیا میں انضمام کے ساتھ ہی اس مدرسہ احمدیہ کی سرکاری گرانٹ بند ہو گئی۔ مسلمانوں کی عام خواہش تھی کہ شہر میں کم از کم ایک دینی مدرسہ جاری رہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد عمران خان مہتمم ندوہ کالج لکھنؤ کی قیادت میں ایک وفد نے چیف کمشنر شری بنرجی سے صرف مدرسہ کی عمارت کی استدعا کی۔ 

’شری بنرجی علومِ مشرقیہ پر بھی کامل دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ چونکہ پیغمبر اسلام مسجد میں دینی تعلیم دیتے تھے اس لیے وہی طریقہ افضل اور عملاً ممکن ہو سکتا ہے۔

’دوسری یہ صورت پیش آئی کہ مساجد کی فہرست جو سرکار کو پیش ہوئی اس میں تاج المساجد کا کہیں اندراج نہیں تھا۔ شری بنرجی نے تاج المساجد قیامِ دارالعلوم کے لیے دے دی۔ اُس وقت صحن مسجد بہت گہرا ناقابلِ گزر کھڈ تھا۔ اور روایت ہے کہ مفرور ملزموں کے پوشیدہ ہونے اور مسروقہ کا مال چھپانے کے کام آتا تھا۔ 

’مشرقی اور شمالی دروازے اور برجیاں اور گنبد نامکمل تھے اور عین مسجد کی چار فٹ موٹی چھت پورے موسم بارش میں اس قدر ٹپکتی تھی کہ ہر حال میں مخدوش اور ناقابلِ استعمال تھی۔‘

مولانا اطہر حبیب خان ندوی کہتے ہیں: ’بھوپال کے انڈیا میں انضمام کے بعد حساس طبقہ سامنے آیا جس میں مولانا عمران خان صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔ 

’انہوں نے دو اہم کام کیے۔ اول تو مولانا نے ایک کمیٹی بنائی جس نے ریاست کی مساجد اور دیگر مذہبی چیزوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ لیا۔ دوسرا انہوں تاج المساجد کو مکمل کرانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ 1950 میں ایک چھوٹا سا مدرسہ اسی جگہ قائم کیا جو کہ دارالعلوم ندوۃ العلما کی ایک شاخ تھی۔ مسجد کے چھوٹے چھوٹے کام 1949 سے 1971 تک ہوتے رہے۔

’غالباً یہ 1971 تھا۔ بھوپال کے ایک مشہور بزرگ شاہ یعقوب مجددی عرف پیر ننھے میاں تھے جن سے عمران صاحب عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے عمران صاحب سے کہا کہ تاج المساجد کا ادھورا کام مکمل کرو۔ انہوں نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے۔ ننھے میاں نے جواب دیا کہ اللہ سب کرائے گا۔

’اس کے بعد مولانا عمران صاحب نے بڑے پیمانے پر بھوپال، انڈیا کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر بیرون ممالک سے چندہ جمع کیا۔ بھوپال کے سینکڑوں جوانوں نے مسجد کی تعمیر میں رضاکارنہ طور پر مزدوریاں کیں اور تب جا کر 1986 میں یہ مسجد پوری طرح مکمل ہوئی۔

’اس مسجد کے مینار اور گنبد نہیں بنے تھے۔ دالان نا تمام تھے۔ صحن کی تعمیر کا کام باقی تھا۔ حوض نہیں بنا تھا۔ یہ سب کام مکمل کیے گئے۔ اس کے علاوہ مسجد کا باب الداخلہ بھی بنوایا گیا۔‘

انڈیا کی یا برصغیر کی سب سے بڑی مسجد؟ 

مولانا اطہر حبیب خان ندوی کہتے ہیں کہ تاج المساجد بلا شبہ انڈیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ 

’یہ دہلی کی جامع مسجد سے تقریباً 28 فیصد بڑی ہے۔ مسجد کے اندر اور صحن میں بَیک وقت 25 تا 30 ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ چوں کہ اس کے اردگرد ایک وسیع پارک اور میدان ہیں تو عید کے موقعے پر لگ بھگ پونے دو لاکھ لوگ یہاں با جماعت نماز ادا کرتے ہیں۔‘

مولانا اطہر حبیب کا کہنا ہے کہ اس کا برصغیر کی پرانی مساجد میں سب سے بڑی ہونے کی بات کو بھی مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ 

’پہلے تو کہا جاتا تھا کہ لاہور کی بادشاہی مسجد سب سے بڑی ہے اور تاج المساجد دوسرے نمبر پر ہے۔ لیکن جب اُس مسجد کی پیمائش کا موازنہ تاج المساجد سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ لاہور کی مسجد کا صحن بڑا ہے اندرونی یعنی عمارتی حصہ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ تاج المساجد کا صحن اور عمارتی حصہ دونوں کافی بڑے ہیں۔‘ 

محمد غضنفر علی خان لکھتے ہیں: ’برصغیر میں چار بڑی مساجد ہیں (قبل از تقسیم ہند تعمیر ہونے والی مسجد)۔ ایک شاہی مسجد لاہور، دوسری جامع مسجد دہلی، تیسری مکّہ مسجد حیدرآباد اور چوتھی مسجد ٹیپو سلطان کرناٹک۔ 

’لیکن ان تمام مساجد کے کھلے صحن بڑے ہیں۔ سب سے بڑی چھت پوش مسجد صرف تاج المساجد ہی ہے جس کا چھت پوش 23 ہزار 312 مربع فٹ پر محیط ہے۔ میناروں کی بلندی 206 فٹ اور اندرونی دروازے کی بلندی 74 فٹ ہے۔‘ 

عارف عزیز لکھتے ہیں کہ رقبہ کے لحاظ سے ایشیا کی (قدیم) مساجد میں تاج المساجد کا چھٹا نمبر ہے۔ 

’مسجد کو سہارا دینے والے ستونوں میں سے ہر ایک پر بیل بوٹے اور نقش و نگار بڑی مہارت سے بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی سات محرابوں میں سنگ مرمر کی 25 تختیاں آویزاں ہیں اور ان میں قرآنی آیات نقش ہیں۔ 

’اسی طرح مسجد کی شمالی اور جنوبی دیواروں پر پتھر کی جن منقش جالیوں کا استعمال ہوا ہے ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پتھر کو موم کی طرح پگھلا کر جالیوں میں ڈھال دیا گیا ہے۔ 

’مسجد کے صحن میں جو حوض ہے مع چبوترے کے اس کی پیمائش تین ہزار 364 مربع فٹ ہے۔ مسجد کے 228 فٹ بلند دونوں مینارے بھی اپنی مثال آپ ہیں جن پر 253 سیڑھیاں اور 72 روشندان طے کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔ 

’تاج المساجد کے تینوں دروازوں میں سے مشرقی سمت کا دروازہ خوبصورتی اور فن تعمیر کا ایک اچھا نمونہ ہے۔ زمین کی سطح سے 50 فٹ بلند اس دروازہ کو کمان کی طرح دور تک پھیلی ہوئی 75 سیڑھیاں ملاتی ہیں۔ 

’شمالی دروازہ سے موتیا تالاب کا خوشگوار منظر نظر آتا ہے۔ اس تالاب کو شاہجہاں بیگم اس مسجد کا حوض بنانا چاہتی تھیں۔ مسجد کے اردگرد کی اراضی جسے تاج المساجد کمپلیکس کے نام سے پکارا جاتا ہے مسجد کے ہی زیرِ تصرف ہے اور اس میں وسط ہند کی ایک اہم درس گاہ دارالعلوم تاج المساجد کے علاوہ علامہ سید سلیمان ندوی کے نام سے موسوم ایک شاندار کتب خانہ بھی قائم ہے۔‘ 

دارالعلوم تاج المساجد کی ویب سائٹ کے مطابق تاج المساجد کا صحن ایک لاکھ پانچ ہزار 625 مربع فٹ ہے۔ مسجد کے ستونوں کی تعداد 70 ہے۔ اندرونِ مسجد شمالی، جنوبی اور مشرقی دالانوں کے کمروں کی تعداد 120 ہے۔ صحن کے گوشۂ شمال و مشرق میں چار حوض ہیں۔ مکمل مسجد کی لمبائی مشرق ومغرب 526 فٹ ہے۔ 

سلطان جہاں بیگم نے 1914 میں شائع کی جانے والی اپنی والدہ کی سوانح عمری ’حیاتِ شاہجہانی‘ میں لکھا ہے کہ تاج المساجد میں خواتین کے لیے مخصوص دو حصے نہایت خوبصورت ہیں۔ 

’بھوپال اور آگرہ کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ ستون اور جنگلوں پر نہایت نفیس نقش و نگار ہیں۔ دالانوں کے کتبے سنگ مرمر پر سنگ موسیٰ سے پچکاری کر کے تیار کیے گئے ہیں۔‘
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ