سعودی عرب میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کا چمکتا ہوا سفید سنگ مرمر کا فرش گرم ترین دنوں میں بھی زائرین کے پیروں کے نیچے ٹھنڈا رہتا ہے اور سکون کا باعث بنتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اگرچہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ فرش کے نیچے چھپے ہوئے ٹھنڈے پانی کے پائپ اس کی ٹھنڈک کا سبب ہیں لیکن اصل وجہ مسجد کے تعمیراتی سامان کے منفرد انتخاب میں پوشیدہ ہے۔
بحیرہ ایجیئن میں کاوالا کے قریب مشرقی یونانی جزیرے تھاسوس کا سنگ مرمر کوئی عام پتھر نہیں اور پتھروں میں پائی جانے والی اب تک کی منفرد ترین خصوصیات میں سے ایک کا حامل ہے۔
خالص سفید شکل اور روشنی کی اعلیٰ عکاسی کی بدولت یہ ’سنو وائٹ‘ ماربل کسی بھی سنگ مرمر کے مقابلے سب سے کم گرمی جذب کرتا ہے۔
تھاسوس کے جزیرے سے قدیم زمانے سے ہی اس پتھر کو نکالا جاتا رہا ہے اور آج بھی پورے یونان میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پتھر سے تاریخ کے سب سے بڑے مقامات کی دیواریں، فرش اور مجسمے بنائے گئے ہیں جن میں مقدونیہ کا قدیم مقبرہ ایمفی پولِس اور استنبول میں واقع مسجد آیا صوفیہ بھی شامل ہیں۔
پتھر کی منفرد خصوصیات کی بدولت اسے پرتعیش ولاز اور اندرونی سجاوٹ میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے حالاںکہ یہ بہت مہنگا ہوتا ہے۔
ماربل فراہم کرنے والی کمپن آر ایم ایس ماربل کے مطابق انفرادی ٹائلوں کی قیمت ڈھائی سو اور چار سو ڈالر فی مربع میٹر کے درمیان ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب نے عازمین کی آسانی اور غیر محفوظ درجہ حرارت سے بچنے کے لیے حرمین الشریفین میں خصوصی استعمال کے لیے کئی دہائیوں تک منفرد سفید ماربل درآمد کیا کیوںکہ مسجد میں آنے والوں کو ننگے پاؤں داخل ہونا پڑتا ہے۔
جنرل پریذیڈنسی میں حرمین الشریفین کے تکنیکی، آپریشنل اور دیکھ بھال کے امور کے انڈر سیکریٹری جنرل انجینیئر فارس آل سعیدی نے عرب نیوز کو بتایا کہ تھاسوس سنگ مرمر شدید گرمی میں بھی انتہائی ٹھنڈا رہتا ہے یہاں تک کہ موسم گرما میں درجہ حرارت 50 سے 55 درجے سیلسیئس تک پہنچ جائے۔
آل سعیدی نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی قیادت نے لاکھوں عازمین کی سہولت کے لیے وسیع صحن اور کھلی جگہوں کی تعمیر کے لیے خود کو ٹھنڈا رکھنے والا پتھر درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ جنرل پریذیڈنسی ماربل کی مرمت، بحالی اور اسے چمکا کر یا پرانی اور ناقابل استعمال ٹائلوں کو تبدیل کرکے ماربل کی دیکھ بھال کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’40 سے زیادہ انجینئرز اور ٹیکنیشنز ساتوں دن 24 گھنٹے سنگ مرمر کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ماربل کی ہر ٹائل پانچ سینٹی میٹر موٹی ہوتی ہے۔ جو چیز سنگ مرمر کو نمایاں کرتی ہے وہ رات کے وقت اپنے نازک سوراخوں سے نمی جذب کرنے اور دن کے وقت اس نمی کو چھوڑنے کی اس کی صلاحیت ہے جس کی بدولت وہ زیادہ درجہ حرارت میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔‘
بین الاقوامی جریدے کنسٹرکشن اینڈ بلڈنگ میٹریلز میں 2021 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پتھر کی تھرمو فزیکل خصوصیات شمسی توانائی کی حرارت کو منعکس اور ختم کر دیتی ہیں۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تھاسوس سنگ مرمر میں اعلیٰ سطح کی شمسی توانائی کا معمول سے ہٹ کر زیادہ انعکاس ہوتا ہے اور چونے کے پتھر کے مقابلے میں حرارت کی موصلیت کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ لائم سٹون ایک اور پتھر ہے جو اسلامی فن تعمیر میں عام استعمال ہوتا ہے۔
مجموعی طور پریہ خصوصیات موسم گرما کے دوران بھی ٹھنڈی سطح کے درجہ حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے موثر ثابت ہوئی ہیں اور رات کے وقت حرارتی توانائی کے فضا میں مجموعی اخراج میں کمی کا سبب بنتی ہیں۔
ماربل مساجد کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے جس سے عازمین کے لیے غیر معمولی اور یادگار تجربہ ثابت ہوتا ہے۔
ایک اور تحقیق جو سعودی و مصری مشترکہ ٹیم نے کی اور 2018 میں عربین جرنل آف جیو سائنسز میں شائع ہوئی اس میں ماربل کو ’گرمی کو کم کرنے والا سمارٹ ماربل‘ کہا گیا۔ تحقیق میں سنگ مرمر کے زیادہ سفید رنگ کو اس میں ڈولومائٹ سے بھرپور کرسٹل سے منسوب کیا گیا۔
مصنف اور ورثے کے محقق عبداللہ البطاطی نے عرب نیوز کو بتایا کہ مطاف (وہ جگہ جہاں زائرین کعبہ کا طواف کرتے ہیں) کا بغیر چھت کے پختہ پتھر کا فرش تھوڑا سا خم دار تھا۔ اور فرش کی طے سے پہلے یہ چھوٹے کنکروں اور پتھروں سے بھرا ہوا تھا۔
البطاطی کے مطابق: ’عمر ابن الخطاب مسجد کے فرش میں پتھر کا استعمال کرنے والے پہلے شخص تھے۔ 119 ہجری (737-738 عیسوی) میں الولید بن عبدالملک کے دور میں مطاف کو توسیع کے بعد سنگ مرمر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ 145 ہجری (762-763 عیسوی) میں ابو جعفر المنصور کے دور میں پرانے فرش کو سنگ مرمر سے ڈھانپ دیا گیا تھا اور 284 ہجری (896-897 عیسوی) میں خلافت عباسیہ کے دور میں سنگ مرمر سے ٹائل کیا گیا تھا۔
’1003 ہجری (1594-1595 عیسوی) میں، فلنٹ پتھروں کی جگہ الابسٹر پتھروں نے لے لی، جب کہ سلطان محمد خان کے دور حکومت میں 1006 ہجری (1597-1598 عیسوی) میں سفید روشن سنگ مرمر نے مطاف کے فرش کو ڈھانپ دیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ شاہ سعود کے دور میں پرانے مطاف سے ماربل کی پرانی ٹائلیں ہٹا کر نئے مطاف کو ہموار کیا گیا تھا۔ دونوں کو کالے سنگ مرمر کی تقسیم کرنے والی لکیر سے الگ کیا گیا تھا جسے سعودی عرب کی متعدد کانوں سے لایا گیا تھا۔
کنگ سعود یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ هوساوی نے عرب نیوز کو بتایا کہ شاہ عبدالعزیز نے جامع مسجد اور مسجد نبوی میں توسیع کی جو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں شاہ خالد کے دور حکومت تک جاری رہی۔ شاہ خالد نے مسجد الحرام کو اس کی موجودہ شکل میں وسعت دینے اور اس کے فرش کو 1978 میں یونان سے درآمد کیے گئے گرمی سے بچانے والے ماربل سے ٹائل کرنے کا حکم جاری کیا۔
شاہ خالد نے مکہ مکرمہ کی مقدس مسجد کی ٹائلیں لگانے کا حکم دیا تاکہ گرمی سے بچانے والے سفید سنگ مرمر کا استعمال کرتے ہوئے جگہ کو برابر کیا جاسکے اور کنکری نما پتھروں کو ہٹا دیا تاکہ مطاف میں نمازیوں اور حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد کو آرام مل سکے۔
ڈاکٹر سلمیٰ هوساوی نے کہا: ’گرینڈ مسجد کی دوسری توسیع 1985 اور 1986 کے درمیان شاہ فہد کے دور میں ہوئی، جنہوں نے کعبہ کے ارد گرد صحن اور گرینڈ مسجد کے اطراف میں دائرے کی صورت اور قطار میں ٹھنڈے سفید سنگ مرمر کا استعمال کرتے ہوئے ٹائل لگانے کا بھی حکم دیا، جس سے وہ نمازی کے لیے آسانی کا باعث بنا۔‘
هوساوی کے مطابق، ماضی کے توسیعی منصوبوں کے تسلسل میں، شاہ سلمان نے دو مقدس مساجد کی خدمات جاری رکھیں جیسا کہ انہوں نے تیسری توسیع کی تکمیل کا حکم دیا اور متعدد اور منصوبوں کا بھی۔
انہوں نے بتایا کہ سنگ مرمر پتھر کے بڑے بلاکس کی شکل میں تھاسوس سے درآمد کیا جاتا ہے، جسے بعد میں مکہ مکرمہ کی مساجد کی تعمیر و ترقی کی نگرانی کرنے والی ایک معروف ٹھیکیدار کمپنی بن لادن گروپ کے ذریعے مملکت کے کارخانوں میں پروسیس کر کے تیار کیا جاتا ہے۔
’انجینئرز اور تکنیکی ماہرین اعلیٰ مہارت کے ساتھ باقاعدگی سے معائنے اور دیکھ بھال کے کام انجام دیتے ہیں، اور ماربل ٹائلیں جو اب اچھی حالت میں نہیں ہیں اور اپنی ٹھنڈک کی خصوصیات کھو چکی ہیں، ان کی جگہ نئی ٹائلیں لگائی جاتی ہیں۔ سنگ مرمر کی یہ قسم قدرتی ہے، اور نہ ہی یہاں پر اور نہ یونان سے کوئی اضافی چیز ڈالی جاتی ہے، اور نہ ہی اس میں کوئی نامناسب عنصر ہے۔‘