اکرم ایک نجی کمپنی میں کلرک ہیں۔ چار بچوں دو بوڑھے ماں باپ اور ایک بیوی کی ذمہ داری ان کے سر پر ہے۔
20 ہزار تنخواہ مہینے کے پہلے 10 دنوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے وہ وہ اکثر پریشان رہتے ہیں۔ بچوں کو سکول سے ہٹا لیا ہے کیوں کہ فیس دینے کے پیسے نہیں ہیں۔
اسی پریشانی کے دوران انہوں نے خبر پڑھی کہ حکومت کی جانب سے تقریبا 350 اشیا پر لگائی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔ انہوں نے ایف بی آر میں کام کرنے والے دوست سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہوم اپلائنسز، موبائل فونز، گاڑیاں، گوشت، سبزیاں، جوتے، فرنیچر، آئس کریم اور جانوروں کی خوراک پر ٹیکس ختم کیا گیا ہے۔
پھلوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 74 فیصد سے کم کر کے 25 فیصد، میوہ جات اور چاکلیٹس پر 49 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد، بلی اور کتوں کی خوراک پر 49 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد اور گوشت پر 5 فیصد کر دی گئی ہے۔
اسی طرح 100 ڈالر تک کے موبائل فون پر تین ہزار, 200 ڈالر تک سات ہزار 500 اور 350 ڈالرز تک 11 ہزار روپے کمی آ سکے گی۔ 500 ڈالرز سے زائد مالیت کے آئی فون پر ریگولیٹری ڈیوٹی 44 ہزار روپے سے کم کر کے 22 ہزار روپے کردی گئی ہے۔
18سو سی سی تک کی گاڑیوں پر ریگوکیٹری ڈیوٹی 100 فیصد کم کر دی گئی ہے۔ اکرم سوچنے لگے کہ کیا ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے مہنگائی بھی کم ہو گی یا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں حکومت کےفیصلے کی اس وقت تعریف کروں گا جب مہنگائی کم ہو گی اور میرے بچے تین ٹائم پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے۔‘
ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مئی 2019 میں حکومت نے 33 قسم کی اشیا جو کہ 789 ٹیرف لائنز کو کور کرتی تھیں، کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔ بعدازاں پابندی ہٹائی گئی، 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 35 فیصد ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لگا دی گئی۔ اس حوالے سے ایس آر او 1571, 1572 جاری گئے گئے تھے۔ لیکن مارچ 31 کو دونوں ایس آر اوز ختم ہو چکے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ایف بی آر نے ایک خط کے ذریعے ٹیرف پالیسی بورڈ کو ان ایس آر اوز کی مدت جون 2023 تک بڑھانے کی سفارش کی تھی لیکن کامرس منسٹر سید نوید قمر نے اس کی مدت بڑھانے سے اتفاق نہیں کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح یہ دونوں ایس آر اوز یکم اپریل 2023 سے خود بخود غیر موثر ہو گئے ہیں حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے اشیا سستی ہو جائیں گی اور ملک میں مہنگائی کی شدت میں کمی آئے گی۔ لیکن میرے مطابق ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے سے مہنگائی میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ روپے کی قدر بہت گر چکی ہے۔‘
پاکستان کی بڑی بیکری چین کے مالک اور لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹری کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر ریاض الحسن صاحب نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ریگولیٹری ڈیوٹی ختم ہونے کے کیا اثرات ہوتے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اس معاملے کو ابھی دیکھنا پڑے گا۔ کیا پتہ آج فیصلہ ہوا ہے اور کل یہی فیصلہ واپس لے لیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ایل سیز نہیں کھلیں گی تو ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کا نہ تو بزنس کمیونٹی کو فائدہ ہو گا اور نہ ہی عوام مستفید ہو سکے گی۔ ایل سی کھولنے کا طریقہ کار اتنا لمبا اور پیچیدہ کر دیا گیا ہے کہ کاروباری طبقہ بھی ایران افغانستان بارڈر سے سمگل اشیا خریدنے پر مجبور ہے۔‘
ان کے مطابق ’مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا امپورٹ کرنا ہے اور کیا نہیں اس کا فیصلہ بھی بیوروکریسی کرتی ہے جبکہ یہ فیصلہ بزنس کمیونٹی کا ہونا چاہیے۔ پھر ہی حقیقی مارکیٹ اور ریٹ سامنے آ سکے گا۔ مہنگائی کم کرنا ایک مشکل اور لمبا سفر ہے اور حکومت ابھی تک اس کی پہلی سیڑھی پر بھی نہیں چڑھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاک ویلز کے کو بانی سنیل سرفراز منج نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت نے ایک ہزار سی سی تک کی سی بی یو گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی بلکل ختم کر دی ہے۔ سی کے ڈی گاڑیوں پر کوئی ٹیکس چھوٹ نہیں ہے۔ سی بی یو گاڑیوں کی قیمت کم کرنے کا فائدہ نہیں ہو گا۔ روپے کی قدر بری طرح گر چکی ہے۔ آر ڈی ختم ہونے کے بعد بھی لوکل گاڑی امپورٹڈ گاڑی کی نسبت سستی رہے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ممکن ہے کچھ امپورٹرز کا فائدہ ہو جائے لیکن عوام کو اس کے اثرات منتقل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ ایک کاغذی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ خوشی سے یا عوام کی بھلائی کے لیے نہیں کیا ہے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دباو میں یہ فیصلہ ہوا ہے۔‘
فیاض بٹ صاحب لاہور کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ حفیظ سنٹر کے خدمت گروپ کے صدر ہیں اور موبائل امپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا ’آر ڈی کم ہونے سے تمام موبائل سستے ہو سکتے ہیں۔ اس وقت مارکیٹ میں بڑے امپورٹرز ہی موبائل امپورٹ کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مکمل فائدہ عوام کو منتقل کرتے ہیں یا نہیں۔ فائدہ عوام تک پہنچنے میں بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ریگولیٹری ڈیوٹی لکثری آئٹمز پر لگتی ہیں، عام استعمال کی اشیا پر نہیں لگتی۔ عام آدمی کے لیے مہنگائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف مہنگائی میں مزید اضافے کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھ رہا ہے۔ پالیسی ریٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ ایسی صورت میں مہنگائی کم ہونے کی امید کرنا خوابوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔‘
جمشید صابر صاحب فیڈرل چمبرآف کامرس ہوم اپلائنسزریجنل سٹینڈنگ کمیٹی کے سابق چیرمیئن ہیں۔ وہ ہوم اپلائنسز امپورٹ کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈیپندنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہوم اپلائنسز 20 سے 25 ہزار روپے سستی ہو سکتی ہیں۔ عمومی طور پر امپورٹر یہ فائدہ دکاندار کومنتقل کرتے ہیں لیکن دکاندار اسے عام آدمی تک منتقل نہیں کرتا۔ اس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں آج سارا دن بینک میں رہا لیکن وہ 25ہزار ڈالر کی ایل سی نہیں کھول رہے۔ حکومت کو اس طرف بھی نظر رکھنی چاہیے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔