ٹرمپ انتظامیہ میں نئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے افغانستان میں مزید امریکی یرغمالیوں کی موجودگی کے امکان کا دعویٰ کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں کے سر کی قیمت اسامہ بن لادن سے بھی زیادہ مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
مارکو روبیو نے ہفتے کو ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا: ’یہ سننے میں آیا ہے کہ (افغان) طالبان کے پاس امریکی یرغمالیوں کی تعداد ممکنہ طور پر سرکاری اعداد و شمار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’اگر یہ سچ ہے تو ہمیں ان کے اعلیٰ رہنماؤں کے سر کی فوری طور پر بہت بڑی انعامی رقم مقرر کرنی ہوگی، شاید اس سے بھی بڑی جو اسامہ بن لادن کے لیے مقرر کی گئی تھی۔‘
تاہم امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کسی بھی طالبان رہنما کا نام نہیں لیا ہے۔
اس سے قبل طالبان حکومت نے منگل 21 جنوری کو بتایا تھا کہ اس نے امریکہ میں قید ایک افغان جنگجو کی رہائی کے بدلے میں دو امریکی شہریوں کو جیل سے رہا کیا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’امریکہ میں قید افغان جنگجو خان محمد کو امریکی شہریوں کے بدلے رہا کیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب بین الاقوامی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے رواں ہفتے (جمعرات کو) کہا تھا کہ وہ افغانستان میں ’خواتین پر ظلم و ستم‘ کے الزام میں سینیئر طالبان رہنماؤں کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کریم خان نے کہا تھا کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخونزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے خلاف ’صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم کرکے انسانیت کے خلاف جرم کی مجرمانہ ذمہ داری قبول کرنے‘ کی معقول بنیادیں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی سی سی چیف پراسیکیوٹر نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کو ’طالبان کی طرف سے غیر معمولی، غیر انسانی اور مسلسل ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے اقدام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے موجودہ صورت حال قابل قبول نہیں ہے۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد پناہ گزینوں پر پابندی کے نتیجے میں تقریباً 1600 افغان شہریوں، جنہیں واشنگٹن نے امریکہ میں آباد ہونے کے لیے کلیئر کر دیا تھا، کی پروازیں منسوخ ہو گئی ہیں۔
صدارتی حکم نامے کے متاثرین میں امریکی فوج میں فعال اہلکاروں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔
اس گروپ میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو امریکہ میں اپنے خاندانوں سے دوبارہ ملنے کے منتظر ہیں اور وہ افغان شہری بھی جنھیں طالبان سے انتقام کا خطرے ہے کیونکہ انہوں نے سابق امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا ساتھ دیا تھا۔