ڈپریشن میں دودھ جلیبی کھائیں یا فلم دیکھیں؟

جب زندگی کے جھمیلوں، تنہائی، اداسی یا بے چینی سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو کھانے کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے پلیٹ میں کھانا نہیں سکون دھرا ہو لیکن ڈپریشن بھگانے کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔

ڈپریشن میں زیادہ کھانا دنیا بھر میں عام ہے۔ ذہنی تناؤ کے دوران لوگ غیر صحت بخش، ہائی کیلوریز، شوگر اور چکنائی سے بھرپور خوراک زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس رجحان کو ’ایموشنل ایٹنگ‘ کہتے ہیں (پکسا بے)

ایک فیس بک پیج پر کسی نے پوچھا: ’ڈپریشن ہے، کون سی فلم دیکھنی بہتر رہی گی؟‘ ہم آپ جیسے کسی پاکستانی نے جواب دیا: ’فلم کو دفع کریں، آدھا کلو گرم دودھ میں پاؤ جلیبی ڈالیں اور کھا لیں۔‘ مسئلہ کوئی بھی ہو پاکستانی اس کا حل کھانے پینے میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟

ڈپریشن میں زیادہ کھانا دنیا بھر میں عام ہے۔ ذہنی تناؤ کے دوران لوگ غیر صحت بخش، ہائی کیلوریز، شوگر اور چکنائی سے بھرپور خوراک زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس رجحان کو ’ایموشنل ایٹنگ‘ کہتے ہیں یعنی بھوک ہے یا نہیں، اپنے اندر کے طوفان کو دبانے کے لیے میٹھے پر ٹوٹ پڑنا۔

جب زندگی کے جھمیلوں، تنہائی، اداسی یا بے چینی سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو کھانے کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے پلیٹ میں کھانا نہیں سکون دھرا ہو۔

راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے طلبہ پر تحقیق کی گئی تو وہاں بھی یہی کہانی ملی۔ جنہیں ڈپریشن نے زیادہ دبوچ رکھا تھا، وہ میٹھے، فاسٹ فوڈ، سنیکس اور فوری کھانے والی چیزوں کی طرف زیادہ مائل تھے، لیکن اس سب کے درمیان پھل اور سبزیاں کہیں گم ہو گئیں۔

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ڈپریشن بڑھتا ہے، ویسے ویسے کھانے کے غیر صحت مند انتخاب کا رجحان بھی زور پکڑتا ہے۔ پہلے ڈپریشن دور کرنے کے لیے کھاتے ہیں، پھر مٹکے جیسا پیٹ دیکھ کر پریشان اور مزید ڈپریس ہوتے ہیں، یہ ایک ایسا چکر ہے، جس سے نکلنا آسان نہیں۔

آپ نے پاکستانیوں میں بڑھی ہوئی توندیں اور کھابوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھناتا ہجوم دیکھا ہو گا۔ وجہ وہی ہے کہ خوشی کے دوسرے مواقع ہیں نہیں، سو کچھ نہ کچھ کھا پی کر جذباتی تسکین کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھئی اس کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔ فلمیں دیکھیں اور موسیقی سنیں۔ یہ پیشہ ورانہ علاج کا متبادل نہیں مگر آپ کی ذہنی و جذباتی صحت پر غیر معمولی اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جب ہم کوئی ایسی فلم دیکھتے ہیں جو ہماری جذباتی حالت سے ہم آہنگ ہو تو مزا آ جائے گا، لیکن ہم دودھ جلیبی پر پھنسے رہے تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔

مزے کے کامیڈی شو دیکھیں اور کھل کر ہنسیں۔ مجھے تو ایسے میں سٹیج ڈرامے بہت مزا دیتے ہیں۔

لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں چند روز پہلے ’تھنک فیسٹ‘ تھا، جہاں مطالعہ پاکستان ٹائپ دانشور اکھٹے تھے۔ اس پس منظر میں یاسر جواد نے امان اللہ کا ایک سین فیس بک پر لکھا۔

امان اللہ نے ایک ڈرامے میں کہا: ’تمہاری تنخواہ دو لاکھ روپے مہینہ ہو گی، بس تمہارا کام سوچنا ہو گا۔‘

دوسرا کردار پوچھتا ہے: ’کیا سوچنا ہے؟‘

امان اللہ کہتا ہے: ’یہی سوچنا ہے کہ دو لاکھ آئیں گے کہاں سے؟‘

دیکھیں ہنسنے اور حکمت سمیٹنے کا کیسا نادر موقع ہے۔ کم از کم دودھ جلیبی سے تو ہزار درجے بہتر۔

دوسری طرف ڈرامائی یا جذباتی فلمیں آپ کو اپنے جذبات بہتر طریقے سے سمجھنے اور پروسیس کرنے کا موقع دیتی ہیں، جس سے آپ کو اپنے اندر چھپے ہوئے احساسات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے۔

جیسا کہ ’گڈ وِل ہنٹنگ‘ جیسی معروف فلم۔

یہ فلم ایک نوجوان وِل ہنٹنگ (میٹ ڈیمن) کی زندگی کی گہرائیوں پر مشتمل ہے۔ غیر معمولی ذہانت کے باوجود، اپنی ماضی کی کچلی ہوئی یادوں کے بوجھ تلے دبا ہوا نوجوان کیسے ذہنی دباؤ سے نکلتا ہے۔ وِل کی ذہانت اسے ماضی کے کرب سے آزاد نہیں ہونے دیتی۔

ایم آئی ٹی میں کام کرنے والے ایک خاکروب کی ذہانت کی گونج جب پروفیسر جیرالڈ لیمبو (سٹیلن سکارسگارڈ) کی نظر میں آتی ہے، تو اس کی تقدیر نیا موڑ لے لیتی ہے، لیکن یہ سب کچھ وِل کی تھراپی کے سفر کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔

ڈاکٹر شان میگائر (روبن ولیمز) کا کردار اس کے لیے ایک روشنی کی کرن بنتا ہے، جو اسے اپنی حقیقت کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ شان کا انداز، جو خود بھی ایک درد بھری کہانی کا حصہ ہے، وِل کو دکھاتا ہے کہ تسکین صرف جسمانی نہیں بلکہ جذباتی طور پر بھی ممکن ہے، اگر ہم اپنے درد کو اپنی کہانی کا حصہ بنا لیں۔

وِل کی جنگ صرف اپنے گزرے ہوئے وقت کو فراموش کرنے میں نہیں بلکہ اس سے جڑنے سے ہے، جس سے وہ ہمیشہ فرار اختیار کرتا آیا تھا۔ جب وہ اپنے جذبات سے روبرو ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف دماغ کی کسوٹی نہیں بلکہ ایک انسان ہے، جسے محبت کی ضرورت ہے۔

یہ فلم ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہماری طاقت کا لاوا ہمارے اندر سے پھوٹتا ہے۔ ہم جو ہیں، اسے تسلیم کرنا اور اسی کو اپنی طاقت میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

ایسی ہی ایک فلم ’پچ ایڈمز‘ ہے، یہ ایک ایسی کہانی ہے، جو ہنستے کھیلتے ہلکے پھلکے انداز میں انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو کھولتی ہے۔ ڈاکٹر ہنٹر ’پچ‘ ایڈمز (روبن ولیمز) کی کہانی ایک روایتی ڈاکٹر کے تصور سے ہٹ کر ہے۔ وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ علاج صرف دوائیوں اور سرجریوں سے نہیں بلکہ ہنسی اور انسانی ہمدردی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

پچ کی زندگی کا آغاز ایک نفسیاتی ہسپتال سے ہوتا ہے، جہاں وہ خودکشی کے خیالات سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ وہاں اس کے اندر ایک نیا خیال جنم لیتا ہے کہ اگر وہ اپنی ہنسی سے لوگوں کے درد کو کم کر سکے تو وہ خود بھی شفایاب ہو سکتا ہے۔ اس کی غیر روایتی حکمت عملی، جو لوگوں کو ہنسانے کی کوشش پر مبنی ہے، جلد ہی میڈیکل سکول میں ایک نئے انقلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

پچ کا سفر صرف طبی دنیا کو بدلنے کا نہیں، بلکہ اپنے اندر کی تکلیف اور دکھ سے لڑنے کا بھی ہے۔ وہ اپنے مریضوں کو محض بیماریوں کے حوالے سے نہیں دیکھتا، بلکہ ایک انسانی مظہر بھی سمجھتا ہے۔ وہ اپنے مریضوں کے درد کو محسوس کرتا ہے اور انہیں ہنسی، محبت اور ہمدردی کے ذریعے شفا دینے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ فلم ہمیں بتاتی ہے کہ انسانیت کے اصل درد کا علاج نہ صرف جسمانی طریقوں سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ہنسی اور محبت سے بھی ممکن ہے۔ پچ ایڈمز ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں دکھاتی ہے کہ زندگی میں کبھی کبھی ہم سب کو اس روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف ہنسی اور محبت دے سکتی ہے۔

’گڈ وِل ہنٹنگ‘ اور ’پچ ایڈمز‘ دونوں ہی انسانیت کے جذباتی پہلوؤں کو کھول کر دکھاتی ہیں، یہ فلمیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کے سب سے مشکل لمحوں میں بھی ہنسی، محبت اور اپنے جذبات کی پذیرائی ہمیں سکون اور کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہیں۔

فلموں کی طرح موسیقی بھی انسان کے جذبات اور دماغ کو متحرک کر سکتی ہے۔ موسیقی سننا ڈپریشن کی شدت کو کم کرنے اور موڈ کو بہتر بنانے کے لیے ایک مؤثر طریقہ ہے۔ تحقیق کے مطابق موسیقی کا سننا دماغ میں ڈوپامین کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے، جو خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح کھانا کھاتے ہوئے اور دودھ جلیبی اپنے اندر انڈیلنے کی خواہش بھی ڈوپامین پیدا کرنے کی ہی ایک کوشش ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ