ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے منگل کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی جبکہ مہنگائی کی شرح میں دو گنا سے بھی زائد اضافے کا امکان ہے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ گذشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب، مہنگائی میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور زرمبادلہ کا بحران ہے۔
اے ڈی بی کی حالیہ فلیگ شپ اقتصادی رپورٹ ایشیائی ترقیاتی آؤٹ لک (اے ڈی او) کے مطابق 2023 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو سست روی کا شکار ہو کر 0.6 رہنے کا امکان ہے جو گذشتہ سال چھ فیصد تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معشیت بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
رپورٹ میں معاشی استحکام کی بحالی، اصلاحات کے نفاذ، سیلاب کے بعد کی بحالی اور بیرونی حالات میں بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی سال 2024 میں شرح نمو دو فیصد تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان یونگ یی نے کہا کہ ’پاکستان کی معیشت بدستور شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے جب کہ گذشتہ سال کے تباہ کن سیلاب نے معاشی اور مالی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
’اس کے باوجود مشکلات کے مقابلے کی صلاحیت اور مضبوط میکرو اکنامک اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ساتھ استحکام کی طرف تیزی سے واپسی پر انحصار کی بدولت، پاکستان تیزی سے واپس آ سکتا ہے۔ اے ڈی بی پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
ایشیائی ترقیاتی آؤٹ لک اپریل 2023 کے مطابق موسمیاتی تبدیلی پاکستان کی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ملک گذشتہ دو دہائیوں میں دنیا کے 10 سب سے زیادہ کمزور ممالک میں شامل ہے، جہاں انتہائی موسم کی وجہ سے زراعت، بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو بھاری نقصان کے علاوہ ہزاروں اموات بھی ہوئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں مالی سال 23-2022 کے دوران پاکستان میں صنعتی ترقی میں کمی کے جاری رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس سے مالی اور مالیاتی مشکلات، مقامی کرنسی کی قیمت میں نمایاں کمی اور تیل اور بجلی کی بلند قیمتوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
مالی سال 2023 میں مالیاتی خسارہ تھوڑی سی کمی کے ساتھ 2023 کی جی ڈی پی کے 6.9 فیصد کے مساوی ہونے کا امکان ہے۔ اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام ٹریک پر رہا تو ممکنہ طور پر خسارہ درمیانی مدت کے دوران کم ہوتا رہے گا کیوں کہ مزید ریونیو حاصل کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ بنانے جیسے اقدامات میں تیزی آئے گی۔
اوسط مہنگائی، مالی سال 2022 میں 12.2 فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال 27.5 فیصد تک دگنی سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ توانائی کی بلند قیمتوں، کمزور کرنسی، سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ، ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں افراط زر 25.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ تیل اور گیس کے خالص درآمد کنندہ کی حیثیت سے پاکستان مالی سال 2023 کے باقی ماندہ حصے میں سخت افراط زر کے دباؤ کا سامنا کرتا رہے گا۔