زیارت: تاریخ، حسن اور محرومی کا عکس

صنوبر کے صدیوں پرانے درخت، قائداعظم کی ریزیڈنسی، اور سیب کے باغات سے مزین زیارت کا سکوت اور حسن دل موہ لیتے ہیں، مگر جدید سہولتوں کی کمی اور لوڈشیڈنگ اس قصبے کی رونق ماند کر دیتا ہے۔

مقامی سیاح آٹھ جنوری، 2022 کو زیارت میں برف سے ڈھکے علاقے میں گھوم پھر رہے ہیں (اے ایف پی)

صنوبر کے درختوں میں گھرا یہ زیارت شہر ہے۔ جنوری 2025 میں بھی جدید سہولتوں سے خالی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا زیارت۔

زلزلے کی فالٹ لائن پر قائم یہ شہر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 156 کلومیٹر یعنی اڑھائی گھنٹے کی غیر ہموار مسافت پر صدیوں سے اہم لوگوں کا پسندیدہ مسکن ہے۔

1886 سے پہلے کوشی نام کی اس آبادی کو صنوبر کے درختوں کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل تھی، یہ درخت ایک صدی میں چند انچ بڑھتے ہیں اس لیے بڑے درختوں کی عمر ہزاروں سالوں پر محیط ہوتی ہے۔

1886 کے بعد کوشی شہر کو اس لیے زیارت کا نام دیا گیا کہ یہاں خراوری بابا نام کے بزرگ کا مزار تھا جس کی زیارت کے لیے اطراف کے لوگ یہاں آتے تھے۔

1903 میں اسے ضلع سبی کا تفریحی مقام تسلیم کیا جاتا تھا۔ زیارت 1974 میں تحصیل اور 1986 میں ضلع بنا۔

اب تو زیارت کی وجہ شہرت قائد اعظم ریذیڈنسی بن چکی ہے مگر دراصل قیام پاکستان سے بہت پہلے پولٹیکل ایجنٹ اس علاقے کو موسم کی وجہ سے اپنے ریسٹ ہاؤس کا درجہ دے چکے تھے۔

زیارت شہر سے کافی بلندی پر ڈاک بنگلے کے طرز پر لکڑی سے بنی یہ عمارت برطانوی حکومت کے افسران بھی استعمال کرتے تھے اور یہاں جنریٹر نصب تھا۔

ریزیڈنسی کے اندر داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ اندر آگے پیچھے اور اوپر نیچے چار، چار کمرے ہیں۔

دائیں جانب پہلے کمرے میں جہاں دو میزیں ایک طرف پر اور ایک درمیان میں ہے جس کے ساتھ چار کرسیاں دھری ہیں۔ یہ قائد کا ڈائننگ روم تھا۔

اس کمرے میں لکڑی کا ایک سٹینڈ ہے جس میں پیتل کا تھال لٹکا ہوا ہے جو گھنٹی کا کام دیتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں یہاں بجلی کا نظام نہ تھا اس لیے تھال بجا کر گھنٹی کا کام لیا جاتا تھا اور خدمت گزار کو بلایا جاتا تھا۔

اس کمرے میں اب قائد اعظم کا لباس کوٹ اور تحریک پاکستان کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں۔ اس کمرے کے بالکل سامنے بائیں طرف کے پہلے کمرے میں قائد اعظم مہمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔

دائیں طرف کا پہلے کمرہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید کے لیے مخصوص تھا جو بعد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر بھی بنے۔

اس کے بالمقابل بائیں جانب والے کمرے میں قائد اعظم کا دفتر تھا۔ اس طرح ان چاروں کمروں کے درمیان میں چوبی برآمدہ ہے جس کے قدمچے پتھر کے ہیں۔

اوپر بھی نیچے کی طرح دائیں بائیں دو، دو کمرے ہیں۔ بالائی منزل پر بائیں ہاتھ کا پہلا کمرہ قائد اعظم کی خواب گاہ تھی جبکہ دائیں ہاتھ کے پہلا کمرہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا تھا۔

قائد اعظم کے بیڈ روم میں ایک ڈریسنگ ٹیبل ہے جبکہ دوسری طرف میز کرسی ہے جہاں وہ اپنے قیام کے دوران حکومتی فرائض سرانجام دیتے تھے۔

اب اس کمرے میں ان کی جوانی کے دور کی تصاویر آویزاں ہیں اور لکڑی کی وہ ٹوکری بھی ہے جو ان کے زیر استعمال رہتی تھی۔

اس سے پیچھے والے کمرے میں بیڈ روم تھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کے کمرے کے پیچھے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔

بالائی منزل پر بھی ان کمروں کے آگے برآمدہ ہے اور کوریڈور ہے جہاں سے ریزیڈنسی کا احاطہ واضح نظر آتا ہے۔

ریذیڈنسی کے احاطے میں اخروٹ اور چنار کے درخت ہیں جو ریزیڈنسی بننے کے وقت وہاں لگائے گئے تھے مگر صنوبر کے درخت صدیوں پرانے ہیں۔

تمام کمروں کا فرنیچر قائد اعظم کے دور کا تھا مگر کچھ شرپسندوں نے 15 جون 2013 میں  بم دھماکوں سے حملہ کیا تو سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا مگر پھر تمام سامان قدیم انداز میں بنایا گیا ہے اور اسی طرز پر لکڑی سے عمارت بنائی بھی گئی اور سجائی بھی گئی۔

اس دور میں یہاں بجلی نہیں تھی اس لیے جنریٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ اب 2025 میں بھی یہاں لوڈ شیڈنگ تھی ۔ پوری عمارت کے 31 دروازے اور 48 کھڑکیاں ہیں جبکہ ملازمین کے لیے عمارت کے پیچھے کوارٹرز ہیں۔

ریزیڈنسی زیارت جہاں قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دورکے 10 یوم گزارے۔ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند ہے۔ 92- 1891 میں اس کی تعمیر پر 39 ہزار روپے کی اس زمانے کے لحاظ سے خطیر رقم خرچ کی گئی۔

گورنر جنرل کے نمائندہ اے جی جی اور چیف کمشنر یہاں موسم گرما کی چھٹیاں گزارتے تھے۔

قائد اعظم کے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے سبب 1985 میں صدر ضیا الحق نے اسے قومی یاد گار قرار دیتے ہوئے آثارِ قدیمہ میں شامل کر دیا اور اس عمارت کا نام ’قائد اعظم ریزیڈنسی‘ رکھ دیا گیا۔

زیارت میں سیبوں کے باغات پودوں کی بوائی اور ترتیب کے حوالے سے بےمثال ہیں۔

ہمیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سردی کی شدت نے سیب کے درختوں سے سبز لبادہ اتار کر ٹہنیوں کو عریاں کر چھوڑا ہے مگر حسن ترتیب سنہری رنگ میں بھی نمایاں ہے۔

ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں یہ باغات کیسے زیارت کی وادی کو خوشبوؤں میں نہلا دیتے ہوں گے۔

زیارت کسی بھی طرح وادئ ہنزہ، نگر، کاغان اور کالام سے کم نہیں۔ اس کا اضافی وصف آسان رسائی ہے۔ کوئٹہ سے نکلیں تو دو سے تین گھنٹے کے سفر میں کئی اور وادیاں بھی آپ کی راہ میں پڑی ملتی ہیں۔

کوئٹہ سے زیارت جاتے ہوئے بلیلی کا علاقہ ہمارا استقبال کرتا ہے۔ پہلے کسٹم کی چیک پوسٹ بلیلی میں ہوا کرتی تھی جہاں چمن اور تفتان سرحد سے لایا گیا سامان قانونی شکل اختیار کرتے ہوئے سرکاری ادائیگیوں کے مراحل سے گزرتا تھا یا پھر ذاتی مفادات کے عوض ملک بھر کے خریداروں تک پہنچایا جاتا تھا۔

کچلاک کے دو بائی پاس ہیں جن پر ٹریفک ہمیشہ جام رہتی ہے۔ ایک بائی پاس پشین اور چمن کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا زیارت کراس کہلاتا ہے۔

کچلاک کے پاس مرکزی شاہراہوں پر بنا دبئی ہوٹل روایتی کھانوں کے لیے معروف ہے اور بلوچستان کا مشہور روش بھی یہاں ملتا ہے۔

کچلاک کے بعد اگلی آبادی بوستان ہے جو مقامی سردار بوستان خان کے نام سے جانی جاتی ہے۔

زیارت کراس سے بائیں جانب مڑ جائیں تو نو گھنٹوں کی مسافت اسلام آباد پہنچا دیتی ہے اور پھر اسلام آباد روڈ سے ہی لورالائی کی سڑک مڑتی ہے۔

زیارت کی طرف جاتی شاہراہ کے دائیں جانب ایک راستہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں سے گزر کر ہرنائی جاتا ہے۔

ہرنائی بلوچستان کا گرم شہر اورمذہبی و علاقائی تعصب اور شدت پسندی میں بہت آگے، بہت سے دلسوز واقعات ہرنائی سے جڑے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم باب زیارت کے سامنے رکے اور سیب کے خزاں رسیدہ باغات کو جی بھر کر دیکھا۔ جھڑ چکے پتوں کے باوجود درختوں کی حسن ترتیب کمال تھی۔

باب زیارت کے بعد سٹرک نیم دائروں میں ہمیں بازار تک لے گئی۔ بنیادی ضروریات کے سامان سے بھرا بازار پررونق بھی تھا اور خوشحال بھی۔

بازار سے نکلتی سڑک سنجاوی اور لورالائی سے ملتان اور لاہور کے دروازے کھولتی تھی۔ غیر مقامی لباس پہنے سیاح قائد اعظم ریذیڈنسی کے گیٹ سے ٹکٹ خرید کر اندر جا رہے تھے اور کچھ لان میں بنے قائد کے مجسمے کے سامنے تصویریں بنوا رہے تھے۔

ہم زیارت میں ہزاروں برس پرانے صنوبر کے وہ درخت دیکھنے آئے تھے جو ایک صدی میں صرف تین انچ بڑھتے ہیں مگر ان درختوں سے جھانکتی قائد اعظم کی یادوں نے ہمیں مزید اداس کر دیا۔

زیارت میں جب برف باری شروع ہوئی تو شام کے سائے اس روشن یادگار کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔

شام کے آثار داخلی دروازے پر لگی افتتاحی تختی پر کنندہ جسٹس فائز عیسیٰ کے نام اور ایک کونے میں لگے نیم مردہ پودے کے پاس آہنی پلیٹ پر لکھے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حروف سے یکساں نمایاں تھے۔

قائد اعظم کے آخری ایام کی حقیقت کی طرح اس لان کی گھاس بھی برف کے سفید گالوں میں چھپ چکی تھی۔

کھلے صحن میں پھیلی تاریخی تنگ دستی ہمیں الوداع کہہ رہی تھی اور ہمارا ڈرائیور ڈی آئی جی پولیس زیارت کے بنگلے کے سامنے گاڑی سٹارٹ کر کے ہمارا منتظر تھا۔

پولیس میس کی کھڑکیوں سے جنریٹر کی توانائی سے روشن مرکری بلبوں کی روشنی جھانکتی تھی اور قائد اعظم کے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔

ہم چاہتے تو زیارت سے آگے سنجاوی، لورالائی، رکنی اور پھر ڈیرہ غازی خان سے ملتان جا سکتے تھے مگر ہم نے واپس کوئٹہ لوٹنا تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ