پاکستان میں برھتی ہوئی مہنگائی اور بدحالی کا شکار معاشی صورتحال کے سبب جہاں زندگی کے دیگر شعبوں پر منفی اثر پڑا ہے وہیں دینی مدارس بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں، تاہم ان اداروں میں صورت حال بہت زیادہ بری نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع دیر زیریں میں مدرسہ احیاالعلوم کے مفتی عبدالودود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دینی مدارس متاثر تو ہوئے ہیں لیکن حالت اتنی ناگفتہ بہ نہیں ہے۔
’مخیر حضرات سے ملنے والی امداد کی وجہ سے ہم نے اس شدید مہنگائی میں بھی اپنے طلبہ یا طالبات کی تعداد کم نہیں کی جبکہ ہمارے سالانہ بجٹ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال ان کے مدرسے کا بجٹ ایک کروڑ روپے کے قریب تھا، جبکہ رواں مالی سال کے لیے یہ بڑھ کر ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ ہو گیا ہے۔
مفتی عبدالودود کا کہنا تھا کہ ان کے مدرسے کی بندش کا کوئی امکان نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اخراجات کنٹرول کرنے کی غرض سے مدرسے میں طلبہ کو دیے جانے والی خوراک میں ردو بدل کیا گیا ہے، جس کے تحت ماضی کے برعکس گوشت کا سالن ایک ہفتے کی بجائے 15 دن یا ایک مہینے میں ایک مرتبہ دیا جا رہا ہے جبکہ گوشت کی مقدار میں بھی کمی کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ گوشت اور مرغی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس رجب اور رمضان کے مہینوں میں چندہ اکھٹا کرتے ہیں لیکن چندہ کسی بھی مدرسے کے سالانہ بجٹ کا 10 فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔
’ہم ان تمام معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ چندے کے بعد بعض مخیر حضرات انفرادی طور پر خود آکر بھی اخراجات برداشت کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اسی سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔‘
مفتی عبدالودود نے بتایا کہ انہوں نے چندہ مہم بھی تیز کی ہے اور اس سلسلے میں ایک مفتی کو کراچی جبکہ بعض مدرسین کی ذمہ داری قریبی علاقوں میں لگائی ہے۔
پاکستان میں وفاقی وزارت تعلیم کے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مجموعی طور 35 ہزار سے زیادہ دینی مدارس ہیں جن میں 30 لاکھ سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
وفاقی وزارت تعلیم کے مطابق ان 35 ہزار مدارس میں 26 ہزار سے زیادہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہیں جبکہ 25 ہزار سے زیادہ مدارس متعلقہ مسلک کے مدارس بورڈز کے تحت کام کر رہے ہیں۔