انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا علاقے راجوڑی ان پہلے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ویلیج ڈیفنس کمیٹییوں کی بنیاد رکھی گئی اور ان میں شامل رضا کاروں کو اسلحہ دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بولٹ ایکشن رائفل لہراتے سرکاری ملازم سنجیت کمار کشمیر کے ان پانچ ہزار دیہاتیوں میں سے ایک ہیں جو عسکریت پسندوں کے مبینہ حملوں میں مقابلے کے لیے صرف ہندوؤں پر مشتمل ملیشیا یونٹوں میں شامل ہوئے ہیں اور جنہیں انڈین فوج نے اسلحہ فراہم کیا اور تربیت دی۔
حکام نے پچھلے سال نئی ملیشیا کا اعلان کیا تھا اور جنوری میں کمار کے سرحدی گاؤں میں عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے کے بعد وہ اس میں شامل ہونے پر تیار ہوئے۔
بلدیہ کے 32 سالہ اہلکار کمار نے اے ایف پی کو بتایا: ’حملے کی وجہ سے ہم مکمل طور پر خوف زدہ ہو گئے تھے۔‘
اپنے آپ کو ہندو مذہبی دکھانے کے لیے ماتھے پر زعفرانی رنگ کی تلک لگائے کمار کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے دفاع کے قابل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
’جو کوئی بھی ہماری قوم سے غداری کرے گا وہ میرا ہدف ہو گا۔‘
یہ منصوبہ علاقے کے ہندو باشندوں میں بڑے پیمانے پر مقبول ہو رہا ہے لیکن مسلمان دیہاتیوں کو تشویش ہے کہ ملیشیا کے قیام سے صرف کشمیر کے مسائل بڑھیں گے۔
دھانگری میں رہنے والے معمر مسلمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا: ’میری پریشانی اس بات پر ہے کہ اب ہتھیار صرف ایک برداری میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
’نوجوان ہتھیاروں کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ ہم میں سے کسی کے لیے اچھا نہیں۔ مجھے کشیدگی برھتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔‘
تاہم راجوڑی سے تعلق رکھنے والے انڈین کانگریس کے رہنما شبیر احمد خان سمجھتے ہیں کہ یہ دفاعی کمیٹیاں کوئی نئی بات نہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ان ویلیج ڈیفنس کمیٹیوں کی بنیاد 1995-96 میں رکھی گئی تھی۔‘
شبیر کا کہنا تھا کہ ان کمیٹیوں کے قیام کے بعد سے انہیں اسلحہ دیا گیا اور اسلحہ چلانے کی تربیت بھی۔ ’ہمیں اس پر کوئی اعتراض تھا نہ ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیٹیوں کے ذریعے عسکریت پسندی کو روکا جا سکا یا نہیں، اس کا جواب حکومت ہی دے سکتی ہے۔
’میں مقابلہ کروں گا۔‘
ڈھانگری کے بہت سے رہائشی، دور افتادہ بستی جہاں کمار رہتے ہیں، میں اب بھی اس حملے سے غم زدہ ہیں جس میں ان کے سات پڑوسیوں کی جانیں گئی تھیں۔
ہاتھ میں 303. کیلیبر کی گولیوں سے بھری رائفل پکڑے ہوئے کاشت کار مراری لال شرما نے کہا ’ہتھیاروں کے بغیر ہم خوف زدہ رہتے ہیں، لیکن اب میں مقابلہ کروں گا۔‘
ایک نیم فوجی افسر نے بتایا کہ حال ہی میں مسلح کیے گئے دیہاتی مسلسل چوکس تھے کیوںکہ ان کی یونٹ نے انہیں رات کے گشت کے بارے میں پہلے ہی مطلع کر دیا تھا تاکہ وہ غلطی سے عسکریت پسند نہ سمجھے جائیں اور ان پر گولی چل جائے۔
انڈین وزارت اطلاعات کے اہلکار کنچن گپتا نے بتایا: ’مقصد دفاعی صف بنانا ہے نہ کہ حملے کی صف۔‘
انڈیا نے سب سے پہلے 1990 کی دہائی کے وسط میں پہلی دفاعی صف کے طور پر کشمیر میں سول ملیشیا فورس بنائی تھی جب انڈین حکمرانی کے خلاف مسلح بغاوت اپنے عروج پر تھی۔
تقریباً پچیس ہزار مردوں اور خواتین، جن میں نوعمر افراد اور کچھ مسلمان بھی شامل تھے، کو ہتھیار دیے کر جموں کے علاقے میں گاؤں کی دفاعی کمیٹیوں کی شکل میں منظم کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کمیٹیوں کے ارکان پر شہریوں پر مظالم کا الزام لگایا۔
ملیشیا پر قتل، ریپ اور بھتہ خوری کے کم از کم 210 واقعات کا الزام لگایا گیا۔ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ دو فیصد سے بھی کم ملزموں کو سزا ہوئی۔
گپتا نے کہا کہ یہ مقدمات انفرادی نوعیت کے ہیں اور ملیشیاز کے منظم جرائم کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چند لوگوں کے بدمعاشی پر اتر آنے کا موقع ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ہر کسی کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔‘
زیادہ تر کمیٹیاں غیر فعال ہو گئیں کیوںکہ انڈین فوجیوں نے بتدریج شورش کو کچل دیا اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہو گئی۔
’اب ہتھیار دے دیے گئے‘
اس بار نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے تربیت دینے والوں نے ملیشیا کے ارکان کو خبردار کیا ہے کہ انہیں اپنی رائفلوں کا غلط استعمال کرنے پر سزا دی جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی آر پی ایف کے ترجمان شیوانندن سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انہیں فائرنگ، ہتھیاروں کی دیکھ بھال اور صفائی کی تربیت کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہتھیاروں کے غلط استعمال پر کیا قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘
نئے ویلج ڈیفنس گارڈز کے قیام کے بعد سے اب تک تین افراد مارے جا چکے ہیں جن میں دو وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ملیشیا کے ہتھیاروں سے خود کشی کی۔
ملیشیا کے ایک رکن کی بیوی جنوری میں اس وقت جان سے گئیں جب ان کے شوہر کی رائفل سے غلطی سے گولی چل گئی تھی۔
لیکن کچھ پڑوسیوں کے تحفظات ڈھانگری کے آس پاس کے دیہات میں مردوں کو ہتھیار لینے سے نہیں روک سکے۔
فلور مل کے مالک اور سابق فوجی اجے کمار نے ان پڑوسیوں کے گھروں کی طرف جنہیں اسلحہ دیا گیا تھا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اب میرے چاروں طرف گھروں میں بندوقیں ہیں۔
’جب بھی ضرورت پڑی، میں اپنے ہتھیار سے بھرپور فائدہ اٹھاؤں گا۔‘