پودے اگانے کے نت نئے طریقے جاننے ہیں تو سوشل میڈیا سے اچھا پلیٹ فارم کوئی نہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اگر سر میں درد ہے تو پیر میں کس جگہ کون سی نس کو دبائیں تو سر درد دور ہو جائے گا، وزن گھٹانا ہے تو صبح اٹھ کر کیا پیا جائے اور اس محلول کو کن کن چیزوں سے اور کیسے بنایا جائے، یہ سب کچھ ملے گا۔
آگے چلیں تو یہ بھی جانیے گا کہ اگر مرد کی گردن پر تل ہے تو کیا مطلب ہے اور اگر عورت کی گردن پر تل ہے تو کیا مطلب ہے۔
وہ علیحدہ بات ہے کہ گردن پر تل ہو یا چوڑی جسامت یا لمبے بال، ان سب کے مطالب مولانا رومی کی تصویر کے ساتھ بیچے جا رہے ہیں۔
گذشتہ سال تک میں بھی کرہ ارض پر آٹھ ارب افراد میں سے ان 4.9 ارب افراد میں شامل تھا جو سوشل میڈیا پر کافی وقت گزارتے ہیں۔
میں نے سوشل میڈیا پر ایک نہیں بلکہ درجنوں پوسٹس دیکھیں جن میں گلاب جلدی اگانے کا طریقہ بتایا ہوا تھا۔
انسان بے صبرا تو ہوتا ہی ہے۔ بھئی 300 روپے کا اگا اگایا پودا ملتا ہے وہ لے لو اگر بہت جلدی ہے، لیکن نہیں خود اگانا ہے اور وہ بھی جلدی۔
سو میں نے سوشل میڈیا پوسٹ غور سے دیکھی، یاد کیا کہ کیا کرنا ہے اور پھر چل پڑا جلد گلاب اگانے۔
ہاتھ میں ایک آلو لیا اس کے اوپر تین سوراخ کیے اور ان میں گلاب کی ٹہنیاں لگائیں۔ اس آلو کو بمع ٹہنیاں مٹی میں دبا دیا اور پانی دیا۔
روزانہ پانی دیتا کیونکہ مٹی خشک نہیں ہونا چاہیے۔ دو ہفتے بعد ٹہنیاں تو خشک ہو گئیں لیکن مٹی میں سے کچھ پتے نمودار ہوئے۔
بڑا خوش ہوا کہ جلدی پتے نکل آئے ہیں۔ لیکن چند مزید روز گزرے تو لگا کہ پتے گلاب کے تو نہیں لگ رہے۔
جب مٹی کو ہٹا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گلاب تو نہیں آلو نے ضرور جڑیں پکڑ لی ہیں۔
پاکستان میں لوگ کتنا وقت سوشل میڈیا پر وقت گزارتے ہیں اس حوالے سے 2021 کی وی آر سوشل اور ہوٹسوٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ اوسطاً تین گھنٹے اور 41 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پہ گزارے جاتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا بہت زیادہ وقت ہے۔
جہاں ایک جانب آلو میں جلد سے جلد گلاب اگانے اور فلانی عورت کی تین نشانیاں اور موٹاپا کیسے کم کریں جیسی چیزیں سوشل میڈیا پر موجود ہیں، وہیں بہت کارآمد چیزیں بھی سوشل میڈیا پر ملتی ہیں اور معلومات کے تبادلے سے بہت کچھ مل بھی سکتا ہے۔
لیکن اتنا زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارنے کے باعث اٹینشن سپین یعنی توجہ کی مدت میں کمی آتی ہے، فوکس کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور یادداشت متاثر ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا کو دانستہ طور پر بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ انسان اس میں بہت مشغول ہو جاتا ہے جس کے باعث ’ڈوپامین لوپ‘ ہو جاتا ہے اور وہ اپنا سوشل میڈیا بار بار چیک کرتا ہے کہ کون سا نیا مواد پوسٹ ہوا ہے۔
اس لوپ کے باعث صارفین کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتے اور زیادہ دیر تک کسی ایک چیز پر فوکس بھی نہیں کر سکتے۔
ہم سب ہی موبائل فونز نامی منشیات کی لت میں پڑ چکے ہیں۔ ہم جلد سے جلد سوشل میڈیا پر مشہور ہونے، توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر سیکنڈ ہم جو وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں وہ چاہے ٹک ٹاک کے بھنور میں ہو یا انسٹاگرام کو سکرول کرنے میں یا پھر آن لائن شاپنگ ہی کیوں نہ ہو ہم سب کی یہ لت مزید پختہ ہوتی جا رہی ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹر اینا لیمبکے کے مطابق اس لت کے سنگین نتائج ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق ہم کم سے کم خوش ہیں، عالمی سطح پر ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ آمدنی ممالک میں رہنے والے افراد ایک دہائی قبل کے مقابلے میں اب زیادہ ناخوش ہیں۔
ہم لوگ اپنی سوچوں کے ساتھ اکیلے رہنا بھول گئے ہیں۔ ہم ہر وقت ایک ہٹ کے لیے اپنے آپ میں دخل اندازی کرتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ ہم بہت کم کسی پروڈکٹو کام پر دیر تک توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
مشہور میڈیکل جریدے لانسٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 20 فیصد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 34 فیصد ہے۔
پاکستان میں 22 کروڑ عوام کے لیے محض پانچ سو ماہر نفسیات ہیں جس کے باعث ذہنی امراض کا علاج یا تو وقت پر نہیں ہو پاتا یا پھر ہوتا ہی نہیں اور 90 فیصد ذہنی امراض میں افراد کا علاج ہوتا ہی نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ ان امراض میں ڈپریشن، نشہ، شیزوفرنیا، دہری شخصیت، پسِ صدمہ ذہنی و جذباتی دباؤ شامل ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 36 فیصد افراد بے چینی اور ڈپریشن کے مریض ہیں۔
اس کی بڑی وجہ خاندان والوں کو اپنی کیفیت کے بارے میں نہ بتانا یا اگر بتایا جائے تو وہ سمجھنے سے قاصر ہیں، سماج میں فٹ نہ ہو سکنا، غیر مستحکم معاشی حالات، بے روزگاری اور غربت شامل ہیں۔
اب پاکستان میں ان ذہنی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ’ڈوپامین لوپ‘ کو بھی شامل کر لیا جائے۔
جیسے ان ذہنی بیماریوں کے حوالے اور ان کی آگاہی کے حوالے سے بہت کم کام ہوا ہے اسی طرح ’ڈوپامین لوپ‘ پر تو کام شاید ہوا ہی نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چار گھنٹے سوشل میڈیا پر گزارنے والوں میں سے کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہمارے موبائل فون بیماری کی ایک دکان ہیں۔
ہم اٹھتے ہیں اور فون اپنے ساتھ ٹوائلٹ لے جاتے ہیں اور سنک یا ٹوائلٹ کے قریب کسی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔
ہم ہر روز سینکڑوں بار اپنے فون کو اپنے ہاتھوں سے چھوتے ہیں اور انھیں اپنے چہروں سے مس کرتے ہیں۔
ہم میں سے اکثر لوگ اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھوتے ہیں، مثال کے طور پر، ٹوائلٹ جانے کے بعد، کھانا پکانے سے قبل یا اس کے بعد، گھر کی صفائی ستھرائی کے بعد یا باغبانی کے بعد مگر بہت کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے فون کو چھونے کے بعد اپنے ہاتھ دھونے کے بارے میں سوچتے ہیں۔
پھر وہی فون یہ جانے بغیر کہ اس پر کتنے جراثیم ہیں، ہم بچوں کو فون کھیلنے کے لیے دے دیتے ہیں۔
ہم سب اس بات کو ماننے سے انکاری ہوں گے کہ ہم ’ڈوپامین لوپ‘ کا شکار ہیں۔
کبھی ہم نے یہ سوچا کہ کیسے ہم جو وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ہمارے کام پر توجہ دینے، ایک اچھے بھائی یا بہن ہونے، دوست ہونے کی قابلیت کو متاثر کر رہا ہے؟
ہمیں اس چیز کا پوری طرح ادراک نہیں کیونکہ جب خود انسان کسی لت میں پڑ جاتا ہے تو وہ اس کے نقصانات کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔