پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے اخبار میں اشتہار کے ذریعے سوشل میڈیا مینیجمنٹ کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں، جبکہ ترجمان کے مطابق پی آئی اے اس سے قبل بھی چھ لاکھ روپے ماہانہ پر سوشل میڈیا مینجمنٹ کی خدمات حاصل کر چکی ہے۔
انگریزی اخبار روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے اس اشتہار کے حوالے سے ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ ’موجودہ ایجنسی کو چھ لاکھ روپے ماہانہ دیا جا رہا ہے، جو مستقل ملازمین رکھنے سے سستا ہے۔‘
اشتہار کے متن کے مطابق پی آئی اے کو موجودہ ٹرینڈز کے مطابق عالمی سطح پر پی آئی اے کی ساکھ بہتر بنانے کی غرض سے میڈیا مینجمنٹ کے لیے سوشل میڈیا ایجنسی کی خدمات درکار ہیں اور ٹینڈر کے آغاز کی تاریخ 17 اپریل مقرر کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بتایا کہ ’قومی ایئرلائن کی پروموشن، اعلانات، آگاہی کے پیغامات، ویڈیوز، انفوگرافس سمیت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے لیے سوشل میڈیا ایجنسی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس طرح کا اشتہار کوئی پہلی بار نہیں دیا گیا ہے بلکہ پی آئی اے 2015 سے اپنے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لیے آرٹ ورک اور ویڈیوز وغیرہ کے لیے سوشل میڈیا ایجنسی کی خدمات حاصل کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا ایجنسی کے ساتھ ایک سال کا معاہدہ کیا جاتا ہے۔‘
’موجودہ سوشل میڈیا ایجنسی کا معاہدہ جلد ختم ہو رہا ہے۔ اس لیے اخباری اشتہار کی معرفت ٹینڈر جاری کیا گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ حفیظ خان نے بتایا: ’قومی ایئر لائن کی پروموشن، نئے اعلانات، کسی جگہ نئی سروس کے آغاز یا دھند سے متعلق آگاہی کے حوالے سے مواد تیار کرنے کے لیے ایجنسی کی خدمات لی جاتی ہیں۔‘
بقول عبداللہ حفیظ خان :’ایجنسیز سے ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بشمول ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب کے لیے ویڈیوز، آرٹ ورک، انفوگراف سمیت مختلف کام کی خدمات لی جاتی ہیں، جو پی آئی اے کے میڈیا مینیجمنٹ کی نگرانی میں کام کرتی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اخباری اشتہار میں دیے گئے ٹینڈر جیتنے والی سوشل میڈیا ایجنسی کو پی آئی اے ماہانہ کتنی رقم کا کنٹریکٹ دے گا؟
اس سوال پر عبداللہ حفیظ خان نے جواب دیا : ’اس بار کنٹرکٹ کتنے کا ہو گا اس کا مجھے اندازہ نہیں، مگر گذشتہ سال یہ کنٹریکٹ چھ لاکھ ماہانہ پر دیا گیا تھا۔‘
کراچی میں کئی سال سے شعبہ ایوی ایشن کی سرگرمیوں کو کور کرنے والے سینئیر صحافی جاوید چوہدری کے مطابق ’خسارے کے باجود اس طرح کا خرچہ کرنا پی آئی اے کا پرانا طریقہ ہے۔‘
جاوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پی آئی اے کے پاس اس وقت کل 24 طیارے ہیں۔ خلیجی ممالک اور ایک اور خطے کے علاوہ پی آئی اے کی تمام بین الااقوامی فلائٹس بند ہیں۔ پی آئی اے ترکش ایئرلائن اور کچھ دیگر ایئرلائنز کے ساتھ مل کر کچھ خطوں میں فلائیٹ چلانے پر مجبور ہے۔ مگر جب ہم پوچھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اس لیے ایجنسی کی خدمات لی گئی ہیں۔‘
جب عبداللہ حفیظ خان سے پوچھا گیا کہ ’پی آئی اے خسارے میں ہے اس کے باوجود اتنی بھاری رقم پر سوشل میڈیا ایجنسی کو دینے کے بجائے پی آئی ملازم کیوں نہیں رکھ لیتی؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کے جواب میں عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ ’ایک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 سےس پی آئی اے میں بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس لیے نئے ملازم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملازمین کی نسبت پی آئی اے کو تعلقات عامہ کی ایجنسی کو انتہائی کم رقم دینا پڑتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ملازم رکھنے کی صورت میں ان ملازمین کے نخرے، تصاویر کے لیے سٹل کیمرا، ویڈیو کیمرا، ایڈیٹنگ سافٹ وئیرز اور مشینز کی خریداری اور دیگر ہارڈویئر اور سافٹ ویئر خرینے اور پھر ان کی دیکھ بھال کے لیے بہت زیادہ رقم چاہیے ہو گی۔‘
’رقم کے علاوہ قانونی طور ان تمام اشیا کیمروں، کمپیوٹر، ایڈیٹنگ میشنز اور سافٹ وئیرز کی خریداری کے لیے بھی اخبارات میں ٹینڈر دینا پڑتا۔ تب میڈیا دوبارہ دوبارہ کہتا کہ خسارے کے باجود اتنی اشیا خریدی جا رہی ہیں۔‘
’اسی لیے ہم نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے مستقل ملازمین کے بجائے ایجنسی کو ہائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’پی آئی اے کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر بہت ہی کم پروموشنل مواد، ویڈیوز نظر آ رہی ہیں جو بقول ان کے ایجنسی کا کام ہے۔ تو اتنی بھاری رقم دینے کے باوجود اتنا کم کام کیوں لیا جاتا ہے؟‘
اس سوال پر ردعمل دیتے ہوئے عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ ’ٹوئٹر پر ہم صرف اپنی خبریں رکھتے ہیں، مگر سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز خاص طور پر فیس بک، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر ایجنسی کی بنائی ہوئی بہت سی ویڈیوز اور دیگر پرموشنل مواد پوسٹ کیا گیا ہے۔‘