پاکستان میں انتخابات کا انعقاد بلاشبہ اہم موضوع ہے لیکن یہ کب ہوں گے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جمعے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جب اس معاملے پر ایک کیس کی سماعت شروع کی تو عدالت عظمٰی کا ’کورٹ روم نمبر 1‘ مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔
وکلا کے درمیان اگلی نشستوں پر سیاست دان بھی موجود تھے، جن میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق اور پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نمایاں تھے۔
قانونی اور آئینی معاملے پر وکلا نے تو بات کی ہی لیکن سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی کو بھی تفصیل سے موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔
پہلے خواجہ سعد رفیق آئے اور عدالت کے سامنے اپنا موقف رکھنے سے قبل کہا ’جو کہوں گا سچ کہوں گا۔‘
انھوں نے ابتدا میں یہ بھی کہ ڈالا کہ وہ وکیل نہیں اس لیے عدالت عظمٰی کے ججوں کے سامنے کس انداز میں بات چیت کرنی چاہیے وہ شاید اس سے مکمل طور پر آشنا نہیں۔
ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنا موقف اور بات تو کرنا چاہتے ہیں لیکن انتہائی محتاط انداز میں۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے جو دور ہوئے وہ انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بات چیت سے معاملے کا حل نکل سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک ہی روز انتخابات، انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے اور انتخابات نگران حکومتوں کے زیر نگرانی کرانے پر اتفاق ہو چکا ہے، بس تاریخ پر فیصلہ نہیں ہو سکا۔‘
ان کے بقول حکومت انتخابات کے انعقاد کی مدت کے حوالے سے کافی پیچھے ہٹی لیکن وہ اس بارے میں کھلی عدالت میں یہ نہیں کہنا چاہتے کہ حکمران اتحاد نے مذاکرات میں انتخابات کس مہینے میں کرانے کی پیشکش کی ہے۔
ایک موقعے پر جب خواجہ سعد رفیق نے عدالت کے سامنے کہا کہ ماضی میں الیکشن سے متعلق سماعتوں کے دوران اگر کچھ اہم نکات حکومتی وکلا یا دوسرے فریق سے رہ گئے تھے تو سپریم کورٹ خود ان معاملات کا نوٹس لے لیتی، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم نے از خود نوٹس لینا چھوڑ دیے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے واضح کیا کہ ’حکومت اپنی مدت کی تکمیل کے بعد ایک گھنٹہ بھی اقتدار میں نہیں رہنا چاہتی۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ سعد رفیق کے موقف اور دلائل پر کہا کہ انہوں نے جو کچھ عدالت میں کہا وہ سنجیدہ سوچ کا عکاس ہے اور جس طرح وفاقی وزیر نے بات کی اسے سراہا بھی گیا۔
لیکن جب شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آئے تو ان کا لہجہ بھی اس انداز کے قریبی ہی تھا کہ جس طرح وہ روایتی طور پر پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے نکات ایک کاغذ پر لکھے ہوئے تھے اور سب احوال تاریخی پس منظر میں پیش کرنا چاہتے تھے۔
تاہم عدالت چاہتی تھی کہ وہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور اس بارے میں اپنی جماعت کے آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں بتائیں تاکہ بات آگے بڑھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ محمود قریشی حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے کچھ نالاں تھے۔ مذاکرات کے دوران ایک موقعے پر حکمران اتحاد کی ٹیم کو مشاورت کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی جس پر شاہ محمود قریشی کے بقول انہیں اپنی جماعت اور پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
قریشی نے جذباتی اور تقریر کے انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی حکومت کو کافی موقع دے چکے ہیں اور ان کے بقول تین نکات ’انتخابات ایک ہی وقت کرانے، انتخابی نتائج تسلیم کرنے اور نگران حکومت سے متعلق معاملات پر‘ ان کی جماعت پہلے ہی حکومت کی بات مان چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ پر حکومت حیلے بہانوں سے کام لے رہی ہے اور اس لیے فی الحال ان کی جماعت کی حکومت سے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں۔
شاہ محمود قریشی جب اپنا موقف عدالت کے سامنے رکھ رہے تھے تو بعض موقعوں پر ان سے کچھ ہی فاصلے پر بیٹھے خواجہ سعد رفیق نفی میں سر ہلا رہے تھے۔
دو سیاست دانوں کے تفصیلی موقف کے بعد جمعے کو سماعت ختم ہونے سے قبل فاروق ایچ نائیک نے کہا انہیں امید ہے کہ بات چیت سے کچھ حل نکل آئے گا، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ ویسے ہی تسلی دیتے رہتے ہیں۔
سماعت کے دوران جہاں دونوں سیاست دانوں کی گفتگو اہم تھی وہیں چیف جسٹس نے بھی کھل کر باتیں کیں اور اشاروں کنائیوں میں شکوہ کیا کہ جس طرح ان اور ان کے ساتھی ججوں سے متعلق جو باتیں ہو رہی ہیں اس کا انہوں نے کبھی جواب نہیں دیا۔
انہوں نے مسکراہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ انہیں غصہ بھی نہیں کیوں کہ غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے۔